سیاست کے بہانے گر مناتا ہے کوئی پکنک
اُسے یہ یاد رکھنا ہے یہ مد ت پانچ سالہ ہے
سیاسی پکنک
ملک کی سیاسی صورتحال اور ہر ریاست کے رائے دہندوں کے نبض کو ٹٹولے بغیر اگر کوئی علاقائی لیڈر صرف اپنے رائے دہندوں کی تائید سے قومی دھارے کی سیاست میں چھلانگ لگانے کا خواب دیکھے تو یہ دوڑ کئی رکاوٹوں کا شکار ہوگی۔ حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے جہاں ایک طرف کانگریس پارٹی نے تین ریاستوں میں کامیابی حاصل کرکے اپنا سیاسی وزن بڑھا لیا ہے تو وہ سال 2019ء کے عام انتخابات میں اس سے بہتر مظاہرہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ ایسے میں غیرکانگریسی، غیربی جے پی وفاقی محاذ بنانے کی کوششوں کا مقصد کیا ہوسکتا ہے یہ ناقابل قیاس ہے۔ اندازہ تو یہ کیا جاسکتا ہیکہ قومی دھارے کی سیاست پر اس وقت بی جے پی نے اپنا سکہ جمایا تھا اور اسے 2009ء کے انتخابات میں ناکامی کا اندیشہ دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے خفیہ کارندوں کی مدد سے وفاقی محاذ کا کھیل کھیلتے ہوئے علاقائی پارٹیوں کومنتشر رکھنا چاہتی ہے۔ ٹی آر ایس سربراہ جنہوں نے تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ قومی سیاست میں سرگرم رول ادا کریں گے اس سلسلہ میں علاقائی پارٹیوں کے قائدین سے ملاقات شروع کی ہے۔ اوڈیشہ میں بی جے ڈی صدر نوین پٹنائک، ترنمول کانگریس صدر ممتابنرجی کے بعد وہ مایاوتی اور سماج وادی پارٹی کی صدر اکھیلیش یادو سے بھی ملاقات کریں گے۔ اسمبلی انتخابات سے قبل بھی انہوں نے اسی طرح کی دوڑ لگائی تھی لیکن اس میں کسی قسم کی پیشرفت نہیں دیکھی گئی۔ اب اسمبلی انتخابات بھی ٹی آر ایس کی کامیابی نے کے سی آر کے حوصلے مزید بلند کردیئے ہیں تو ان کی اس طرح کی گرمجوشی سے یہ سوال اٹھ رہا ہیکہ آیا وہ غیر بی جے پی، غیر کانگریس محاذ بنانا چاہتے ہیں یا غیر کانگریس محاذ کیلئے کام کرتے ہوئے بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں تاکہ قومی سطح پر پہلے ہی سے مہا گٹھ بندھن کیلئے جاری کوششوں میں تمام اپوزیشن پارٹیوں نے بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کے خلاف عظیم اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں بات چیت جاری ہے۔ یہ غور ہورہا ہیکہ جو پارٹی اپنی ریاست میں سب سے زیادہ طاقتور ہوگی اسے زیادہ نشستیں دی جائیں گی۔ این سی پی صدر شردپوار نے بھی پہلے ہی واضح کردیا ہیکہ ایک عظیم اتحاد کیلئے اپوزیشن پارٹیوں میں مذاکرات کا عمل جاری ہے اور نشستوں کی تقسیم کا مسئلہ بھی مختلف مرحلوں میں حل کرلیا جائے گا۔ عظیم اتحاد کیلئے جاری اپوزیشن پارٹیوں کی کوششوں کے درمیان اگر تلنگانہ کی ٹی آر ایس کے سربراہ اپنی الگ راہ نکالنے کی کوشش کررہے ہیں تو یہ درپردہ طور پر بی جے پی اور مودی کو مضبوط بنانے کی کوشش ہوسکتی ہے کیونکہ غیربی جے پی اور غیر کانگریس وفاقی محاذ بنانے کا ان کا منصوبہ قطعی قابل عمل نہیں ہے۔ قومی سطح تک پہنچنے کیلئے قومی دھارے کی پارٹی کا ہونا لازمی ہے۔ کے سی آر نے کانگریس کے بغیر حکومت بنانے کی کوشش کے حصہ کے طور پر وفاقی محاذ کا منصوبہ تیار کرلیا ہے تو یہ وفاقی محاذ دوسری قومی پارٹی بی جے پی کو تقویت پہنچانے کیلئے ہوگا۔ بی جے پی اس مرتبہ اپنی دوبارہ واپسی کیلئے کچھ بھی کرنے کیلئے تیار نظر آرہی ہے۔ 3 ریاستوں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں اور بی جے پی کی بدترین شکست کے بعد بی جے پی کی قومی قیادت کو 2019ء کے عام انتخابات میں بھی پارٹی کو ہزیمت کا سامنا ہونے کا اندیشہ ہوچکا ہے۔ اب وہ ہر محاذ اور ہر زاویہ سے اپنی سیاسی ساکھ مضبوط بناتے ہوئے عام انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی اور اس کوشش کے مہر کے سی آر کو بنایا گیا ہے۔ کے سی آر کا یہ وفاقی محاذ کا خواب ان کا اپنا ذاتی ہوتا تو شاید اس میں انہیں کامیابی ملتی مگر یہ خواب کسی اور نے دیکھا ہے اور کے سی آر کی کوششوں میں خواب کی تعبیر تلاش کی جارہی ہے۔ ایسے شاطرانہ سیاسی ماحول سے ممتابنرجی، نوین پٹنائک، مایاوتی جیسے قائدین بخوبی واقف ہیں اس لئے ان تینوں میں سے خاص کر ممتابنرجی نے کے سی آر سے ملاقات کے بعد وفاقی محاذ کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ کے سی آر نے عوامی ٹیکس سے جسے رقومات کو استعمال کرتے ہوئے اپنی جیت کا جشن منانے بلکہ پکنک کیلئے ریاستوں کا دورہ کیا ہے تو یہ وہ صرف ایک سیاسی پکنک ہی ثابت ہوگا۔