سیاسی مسلم نمائندگی

کون میرے دامن کی دھجیوں کو سمجھے گا
دل بھی ہوگیا دشمن اجنبی کی چاہت میں
سیاسی مسلم نمائندگی
ہندوستان میں ایک اندازہ کے مطابق مسلمانوں کی آبادی دُنیا بھر میں رہنے والے مسلمانوں کے تناسب سے دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ عالمی ریسرچ اداروں نے ہندوستانی مسلمانوں کی آبادی اور ان کی ترقی کا تناسب پیش کرتے ہوئے ان کی حالات سے متعلق افسوسناک صورتِ حال کو اُجاگر کیا ہے۔ اس کا ثبوت حالیہ اسمبلی انتخابات سے ملتا ہے، جہاں مسلم قائدین کی نمائندگی گھٹ گئی ہے۔ ووٹ دینے والی مسلم آبادی کی اکثریت کے تناسب سے مسلم نمائندوں کی تعداد زیادہ ہونی چاہئے، مگر دن بہ دن قومی و علاقی قانون ساز اداروں میں مسلم نمائندگی کا گرتا ہوا فیصد تشویشناک ہے۔ مسلمانوں کے ووٹوں کو منقسم کرکے انھیں سرکاری و سماجی محاذ پر کمزور بنانے کی سازشوں کو دن بہ دن کامیاب بنایا جارہا ہے۔ مہاراشٹرا میں مسلم ارکان کی تعداد 2009ء کے 11 سے گھٹ کر 9 ہوگئی ہے جب کہ مہاراشٹرا میں مسلم غلبہ والے علاقہ زیادہ ہیں۔ 1992ء اور 1993ء میں ممبئی مسلم کش فسادات میں سینکڑوں مسلمانوں کو فاشسٹ طاقتوں نے ہلاک کردیا تھا۔ اس کے باوجود یہاں کا مسلم طبقہ فاشسٹ طاقتوں کے خلاف اپنی مورچہ بندی کا کوئی منظم قدم نہیں اُٹھایا۔ مسلمانوں کو ہندوستانی معاشرہ میں ہر محاذ پر پیچھے ڈھکیل دیا جارہا ہے۔ کسی بھی روزگار کے فیصد میں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں یا سیاست میں مسلمانوں کا فیصد گھٹ رہا ہے یا گھٹایا جارہا ہے۔ ان کی آمدنی دیگر طبقات سے کمتر ہوتی ہے اور یہ لوگ بینکوں اور دیگر مالیتی اداروں سے بھی قرضے حاصل کرنے کے اہل نہیں سمجھے جاتے۔ اسکولوں میں چند سال گزارکر مسلم بچے فٹ پاتھوں، دوکانوں یا فیکٹروں میں بندھوا مزدوری کی بھینٹ چڑھتے جارہے ہیں۔ خواندگی کی شرح کے بارے میں ہر مسلم محاذ پر زبردست آہ و بکا کے باوجود کوئی بہتری نہیں آرہی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے زیادہ تر مسائل ان کے اپنے یا ان کے ووٹ لینے والے قائدین کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ ہندوستانی جمہوریت کے ثمرات سے استفادہ کرنے سے بھی انہیں مختلف عنوانات سے روکا جاتا ہے۔ حالیہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے بعد نام نہاد ہندو قوم پرستوں کو طاقتور بنایا گیا تو مسلمانوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگا دیا گیا ہے ان تبدیلیوں کے درمیان اگر ہندوستانی مسلمانوں نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو پھر سیاسی مسئلہ پر ان کا فیصد گھٹ کر صفر ہوگا اور سماجی و تعلیمی، معاشرتی مسئلے پر بھی انہیں صفر قوم بنانے کی ہر طرح کوشش و سازش کی جائے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں میں شعور کا فقدان ہو۔ وہ اپنے حصہ کے طور پر سوچتے غور کرتے ہیں، مگر اس کا اجتماعی فائدہ یا کوشش نہیں ہوتی۔ سرکاری طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان 180 ملین ہیں۔ یہ تعداد ایک قوم کو طاقتور بنانے کے لئے کافی ہے، مگر صدمہ خیز حقیقت ہے کہ طاقتور قوم کا موقف رکھنے کے باوجود اسے ہر محاذ پر کمزور بنایا جارہا ہے۔ اُمت ِ مسلمہ کہلانے والی قوم لف اُمت کی معنوی اہمیت پر عمل نہیں کررہی ہے۔ یعنی اُمت کا مفہوم ہے لوگوں کا اجتماع جسے حرفِ عام میں قوم بھی کہتے ہیں۔ اس قوم کی طاقت کو تسلیم کرلینے کے باوجود اس کا اپنا سیاسی نظام کمزور ہے، معاشی و تعلیمی نظام کی بات الگ ہے۔ ہندوستان سے ہٹ کر باہر کی دُنیا میں دیکھیں تو اس وقت دُنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں۔ او آئی سی کے نام سے ان کی ایک تنظیم بھی ہے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے کارناموں کی طرح اس کا وجود بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں کا وجود ہونے کے باوجود ان کے کارنامے نظر نہیں آتے۔ جو قائدین انتخابات کے وقت ان کی دہلیز پر ہاتھ جوڑے کھڑے دکھائی دیتے ہیں، نتائج کے بعد پانچ سال تک پلٹ کر نہیں آتے۔ اس طرح کے قائدین ہندوستان کی مسلم آبادی کو کمزور بنانے میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ ان کی مکاری نے انھیں ازخود طاقتور بنادیا ہے۔ ان کے ووٹ دہندہ کمزور ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں میں مذہبی رہنماؤں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ ان کی موجودگی سے بھی اُمت ِ مسلمہ کی عام زندگیوں کو بہتر نہیں بنایا جاسکا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہر محاذ پر مسلمانوں کو پیچھے ڈھکیلنے کی سازشوں کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی جارہی ہے؟ چند مسلم قائدین یقینا اپنے آقاؤں کے احسان کے بدلے قوم کی قسمت داؤ پر لگادیتے ہیں۔ ان حالات میں بھی مسلمانوں نے اپنے یہاں موجود قائدین اور مکار قیادت کو نہیں پہچانا۔ چند لوگوں کو توانا بناکر انھیں اپنا حواری بنالینے سے پوری قوم کی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہندوستان اور سیکولرزم کا ایک ایسا تعلق ہے جو ہمیشہ ہی ہر قوم کے لئے باعث فخر رہا ہے، مگر حالیہ برسوں میں ہندوستان اور سیکولرزم کی بجائے ہندوستان اور ہندو پرست کا نعرہ لگاکر مباحث کی لپیٹ میں لیا جارہا ہے۔ سیکولرزم کا بہترین طرز حکمرانی ہی سب کے لئے بھلائی کے کام آئے گی، مگر قومی و علاقائی قانون ساز اداروں میں جب نمائندگی کا توازن بگڑ جائے یا یکطرفہ ہوجائے تو دیگر قوموں کی بھلائی کی توقع مفقودہونے لگتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر انتخابات سے قبل مسلمانوں کو باشعور بنایا جائے۔ ان کے ووٹ مانگنے والوں کی مکاری کو آشکار کیا جائے۔ اس کے لئے باضابطہ منظم مہم کی ضرورت ہوتی ہے۔