تجارتی اداروں کے افتتاح میں والدین اور مذہبی شخصیتوں کو ترجیح دینے کی ضرورت، ہزاروں روپئے کے اسراف سے بچت ممکن
حیدرآباد۔/14جولائی، ( سیاست نیوز) سیاسی قائدین کے پوسٹرس، بیانرس اور فلیکسیز لگانے کے رجحان میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ ترقیاتی کاموں کا آغاز ہو یا پھر کسی تجارتی یا مذہبی ادارے کا افتتاح ہر دو مواقع پر سیاسی قائدین کو مدعو کرتے ہوئے انہیں خوش کرنے کیلئے پوسٹرس ، بیانرس اور فلیکسیز پر بھاری رقم خرچ کی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد کے علاوہ غیر سیاسی لوگوں میں اس رجحان میں اضافہ باعث حیرت ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ مذہبی اداروں سے وابستہ افراد بھی اپنی اہمیت کو فراموش کرتے ہوئے سیاسی قائدین کی خوشنودی حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مذہبی اداروں کے پروگراموں کے پوسٹرس اور خیرمقدمی بیانرس میں سیاسی قائدین کو نمایاں طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے اگرچہ پوسٹرس، بیانرس اور فلیکسیز کے خلاف باقاعدہ مہم کا آغاز کیا لیکن چالانات کی پرواہ کئے بغیر یہ رجحان برقرار ہے۔ عام آدمی کا یہ تاثر ہے کہ صرف وہی لوگ یہ طریقہ کار اختیار کرتے ہیں جو سیاسی قائدین سے خوفزدہ یا پھر ان کے آلہ کار یا عرف عام میں چمچے ہوں۔ ترقیاتی کاموں کے آغاز کیلئے فنڈز تو حکومت کی جانب سے منظور کئے جاتے ہیں لیکن مقامی سیاسی قائدین ان پر اپنی تصویر آویزاں کرتے ہوئے کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کنٹراکٹرس کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اخبارات میں اشتہارات اور گلپوشی کے علاوہ پوسٹرس اور بیانرس کا خرچ برداشت کریں۔ جب کنٹراکٹر یہ خرچ برداشت کرتا ہے تو یقینی طور پر وہ کام کے بجٹ سے ہی یہ رقم استعمال کرے گا، اس سے معیاری کام کی تکمیل کی اُمید کس طرح کی جاسکتی ہے۔ کسی علاقہ میں کوئی افتتاح ہو یا پھر قائدین کا دورہ راتوں رات اُن کے حامی اور سیاسی طور پر فائدہ اٹھانے والے افراد فلیکسیز اور بیانرس لگادیتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں عوام کے درمیان یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کس قائد کا کون چمچہ ہے اور کون اُن سے قربت کی آڑ میں سیاسی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ دکانات اور خانگی اداروں کے افتتاح کیلئے بھی سیاسی قائدین کو مدعو کرنا کس حد تک ضروری ہے۔ شہر میں پہلے تجارتی یا کسی اور خانگی سرگرمی کے آغاز کے موقع پر مذہبی شخصیتوں کو مدعو کرتے ہوئے ان سے دعائیں حاصل کی جاتی تھیں لیکن اب مذہبی شخصیتوں کا رتبہ سیاسی قائدین کے بعد ہوچکا ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مذہبی شخصیتیں خود بھی سیاسی قائدین کی خوشنودی میں مصروف ہیں۔ عوام جب دیکھتے ہیں کہ مذہبی قائدین خود سیاستدانوں کے اسیر بن چکے ہیں تو پھر وہ کس طرح سیاستدانوں پر انھیں ترجیح دیں گے۔ خانگی اداروں و تجارت کے آغاز کیلئے والدین سے بڑھ کر کوئی اور دعا دینے والا نہیں ہوسکتا لیکن آج کی نسل والدین کی اہمیت کو فراموش کرچکی ہے۔ قرآن اور حدیث میں والدین کی دعاؤں اور اُن کے سایہ عافیت کے بارے میں کئی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں لیکن آج کی نسل کو والدین سے زیادہ سیاسی افراد اس لئے بھی عزیز ہوچکے ہیں کیونکہ سیاستدانوں سے تعلق کی صورت میں کبھی بھی پولیس یا کسی اور ڈپارٹمنٹ کا کام بآسانی بن سکتا ہے۔ علاقہ کے سیاسی قائد کو خوش رکھنے کیلئے بھی والدین کی اہمیت نظرانداز کی جارہی ہے۔ کسی بھی علاقہ میں اکثر و بیشتر پولیس سے تاجرین خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح پولیس کو خوش رکھا جائے۔ پولیس کے ظلم یا پھر ان کی مداخلت سے بچنے کیلئے سیاسی قائدین کا سہارا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بزرگوں کا خیال ہے کہ کاروبار میں برکت کیلئے والدین اور مذہبی شخصیتوں کی دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اکثر کاروبار ایسے بھی دیکھے گئے جن کا افتتاح سیاسی قائدین نے کیا تھا لیکن وہ کاروبار ٹھپ ہوجاتے ہیں حالانکہ ان کو مدعو کرنے پر ہزاروں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں، پوسٹرس، بیانرس اور فلیکسیز کے علاوہ گلپوشی اور آتشبازی و سامعہ نوازی پر ہزاروں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں۔ سماج میں اس مسئلہ پر شعور بیداری کی ضرورت ہے تاکہ قوم اسراف سے بچ سکیں اور مذہبی شخصیتوں اور والدین کی اہمیت کو سمجھ پائیں۔ صرف وہی لوگ پوسٹرس، بیانرس اور فلیکسیز لگاتے دکھائی دیں گے جن کے سیاستدانوں سے مفادات وابستہ ہیں۔ نوجوان نسل کو چاہیئے کہ اگر وہ اپنے کاروبار یا دیگر تجارتی افتتاحی تقاریب میں برکت اور ترقی چاہتے ہوں تو وہ اپنے والدین یا خاندان کے بزرگوں کے علاوہ ائمہ مساجد و دیگر بزرگوں کو سیاستدانوں پر ترجیح دیں۔