سیاسی قائدین اور مذہبی رہنما

یہ مصرعہ لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
سیاسی قائدین اور مذہبی رہنما
انتخابات آتے ہی ہرسیاسی جماعت کی جانب سے سماج کے ہر طبقہ کو رجھانے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ ایک عام بات ہے لیکن گذشتہ کچھ وقت سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ مذہبی رہنما سیاسی میدان میں بھی اپنا آپ منوانے کی کوششوں میں جٹ گئے ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی انہیں اپنی ضرورت کے وقت استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ اس کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آیا سیاسی میدان کے بازی گر اب مذہبی رہنماوں کو بھی استعمال کرسکتے ہیں تو پھر عوام کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں رہ جائیگی ۔ اتر پردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے ۔ کہتے ہیں کہ اتر پردیش میں جو کامیاب ہوا وہی دہلی کے تخت پر براجمان ہوسکتا ہے ۔ یہ روایت کچھ وقت ہندوستانی سیاسی حلقوں میں عقیدہ کی حد تک پھیلی ہوئی ہے ۔ اسی وجہ سے ہر سیاسی جماعت اتر پردیش میں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرتے ہوئے دہلی کی گدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اب جبکہ انتخابات ایک اہم مرحلہ میں پہونچ گئے ہیںا ور اختتامی مراحل سے قبل انتخابی مہم کی شدت عروج پر پہونچ چکی ہے ایسے میں سیاسی قائدین ایک بار پھر مذہبی رہنماؤں کا استحصال کرنے پر اتر آئے ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ یہ مذہبی رہنما اپنے آپ کو سیاسی میدان کے بازیگروں کے ہاتھ میں کھلونا بنانے سے گریز کرنے کی بجائے فخر کرنے لگے ہیں۔ اتر پردیش میں گذشتہ چند دنوں کے دوران تقریبا تمام جماعتوں کے سیاسی قائدین نے مذہبی رہنماوں سے ملاقات کرتے ہوئے اپنے حق میں ووٹ جٹانے کی کوشش کی ہے ۔ میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہوئے اپنی شبیہہ کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے لیکن یہ حقیقت ہر کوئی جانتا ہیح کہ ایک بار انتخابات ہوجائیں تو پھر انہیں علما اور مذہبی رہنماؤں کو یہ سیاسی قائدین ذرا سی بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتے ۔ نہ صرف یہ بلکہ انہیں کئی طرح کے طعنے دئے جاتے ہیں اور ان کا قد چھوٹا کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ۔ اس حقیقت سے خود مذہبی رہنما بھی واقف ہیں اس کے باوجود وہ سیاسی جماعتوں اور قائدین کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے آر ہے ہیں اور اپنی اہمیت اور وقعت کو خود وہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
جب سیاسی قائدین مذہبی رہنماؤں کے در پر پہونچتے ہیں اور ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ مذہبی رہنما ایسا لگتا ہے کہ ہواؤں میں اڑنے لگتے ہیں۔ اتر پردیش میں جب بی جے پی کے سربراہ راجناتھ سنگھ نے کچھ مذہبی لیڈروں سے بات چیت کی تو یہ بیان دیا گیا کہ راج ناتھ سنگھ قابل قبول ہوسکتے ہیں نریندر مودی نہیں ۔ شائد یہ بیان دینے والے مذہبی رہنما یہ بھول گئے ہیں کہ یہ راج ناتھ سنگھ ہی ہیں جو نریندر مودی کو وزارت عظمی امیدوار کی حیثیت سے پیش کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ راج ناتھ سنگھ ہی ہیں جو مودی کی ہر محاذ پر مدافعت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ یہ راج ناتھ سنگھ ہی ہیں جو گجرات میں مودی کی حکومت میں مسلمانوں کے قتل عام پر معذرت خواہی کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ یہ راج ناتھ سنگھ ہی ہیں جن کی قیادت میں بی جے پی نے کٹر ہندوتوا پر مبنی اپنا انتخابی منشور جاری کرتے ہوئے مسلمانوں کیلئے پھر سے عرصہ حیات تنگ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے ۔ ان تمام حقائق کے باوجود اگر کسی کو راج ناتھ سنگھ قابل قبول ہوسکتے ہیں یہ تو ان کی اپنی شخصی رائے ہوسکتی ہے یہ سارے مسلمانوں کی رائے ہرگز نہیں ہوسکتی اور مسلمان جس طرح مودی کو قابل نفرت سمجھتا ہے اسی طرح راج ناتھ سنگھ کے تعلق سے بھی اس کی رائے مختلف نہیں ہوسکتی ۔ مذہبی قائدین کو اس طرح سے حقائق کو نظر میں رکھے بغیر بیانات کی اجرائی سے گریز کرنا چاہئے تاکہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہوکر فرقہ پرستوں کو فائدہ نہ پہونچنے پائے ۔
اتر پردیش میں مسلمانوں نے گذشتہ اسمبلی انتخابات میں جس طرح سے ایک جٹ ہوکر ایک جماعت کے حق میں رائے دیتے ہوئے اپنی طاقت کا اظہار کیا ہے وہ ایک مثال ہے ۔ سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس مثال کو سمجھیں اور ہر حلقہ میں امیدوار کی طاقت ‘ اس کے ماضی کے ریکارڈ اور اس کے مستقبل کے منصوبوں کو سمجھیں اور وقتی اور جذباتی بہکاوے میں آنے کی بجائے سیاسی بصیرت اور شعور کا مظاہرہ کریں۔ مذہبی قائدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم میں کسی طرح کے انتشار کا موجب بننے کی بجائے ان کی صحیح رہنمائی کو ترجیح دیں۔ سیاسی قائدین کی دوستی ‘ مذہبی رہنماؤں کیلئے بہتر نہیں ہوسکتی ۔ اس کی ماضی کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان سب حالات کوسامنے رکھنے کے باوجود اگر ہم حالات کا شکار ہوجائیں تو پھر ہمارے مسائل کیلئے دوسروں کو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتے اور ہماری قوم کی ابتر حالت کیلئے ہم خود ذمہ دار ہونگے ۔ وقت نکلنے کے بعد ہاتھ ملتے رہنا سیاسی شعور کے فقدان کا نتیجہ ہوگا ۔