وزیراعظم نریندر مودی نے ہمیشہ یہی کہاہے کہ وہ ذاتی طور پر کسی بدعنوانی سے پاک ہیں ۔ اکثر انہوں نے خود کو فقیر قرار دیا ہے لیکن ان کی پانچ سالہ حکمرانی کے اختتام سے قبل ان پر جو الزامات عائد کئے جارہے ہیں ۔ اس سے ان کے اس ادعا کی نفی ہوتی ہے کہ وہ صاف ستھرے ہیں ۔ فرانس سے کئے گئے رافیل طیارہ معاہدہ کے ذریعہ قومی دفاعی شعبہ کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے ۔ اس پر اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کا انہوں نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا ۔بظاہر وہ خود صاف ستھرے ظاہر کریں لیکن ان کے روابط ان بڑے تجارتی گھرانوں سے ہیں جن کے تعلق سے کئی شبہات جنم لے رہے ہیں ۔ سابق صدر فرانس کے تازہ انکشافات نے قومی ، سیاسی اور عالمی سطح پر بحث پیدا کردی ہے کہ آیا مودی حکومت نے بڑے تجارتی و صنعتی گھرانوں کو ضرورت سے زیادہ فائدہ پہونچانے کی کوشش تو نہیں کی ؟ خاص کر انیل امبانی کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں ۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے مودی حکومت کی رافیل سودے بازی کا کچا چٹھا کھولدیا ہے ۔ اس کے باوجود حکمراں طبقہ اپنے چہرے پر ڈال کے پھرتا ہے نقابوں پر نقاب تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر اس کا چہرہ بے عیب ہے تو اسے چہرہ دکھانے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہئے ۔ اس حکومت کا اصل چہرہ کیا ہے یہ عوام جاننا چاہتے ہیں ۔ مودی حکومت کے خلاف الزامات کا سمندر طلاطم برپا کرتا جارہا ہے لیکن یہ حکومت خاموش رہنے کو ہی اپنی عافیت سمجھ رہی ہے ۔ اس حکمراں کے اقتدار کا کرشمہ یہی ہے کہ اس نے ہندوستانیوں کی بڑی اکثریت کو لاشعور کردیا ہے لیکن جھوٹ کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو وہ رفتہ رفتہ عوام کے دل سے بھی اترتا جائے گا ۔ مودی کی داستان سیاست بہت خاموش ہے مگر راہول گاندھی بدعنوانیوں کی پس دیوار پائی جانے والی خرابیوں کو آشکار کرنا چاہتے ہیں ۔ دفاعی شعبہ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والی حکومتوں میں کانگریس بھی شامل ہے ۔ بوفورس معاملہ اس پارٹی کا ہنوز تعاقب کررہا ہے لیکن اس سے زیادہ بھیانک سودے بازی میں مودی حکومت نے بازی مارلی ہے ۔ اگر ملک کے دفاعی شعبہ کو کمزور کردیا جائے تو ملک کی سلامتی کا دم بھرنے والے یہ حکمراں اس بات سے بے خبر نہ رہیں کہ سودے بازی کی گردشیں ان کا کچھ نہیں بگاڑیں گی کیوں کہ اب اس حکومت کی بدعنوانیوں کے ورق پلٹ رہے ہیں اور انتخابات کی آندھی میں انہیں اڑا کر لے جاسکتی ہیں ۔ بلا شبہ رافیل دفاعی سودے بازی کا تنازعہ سیاسی بدعنوانی کی تمام حدوں کو پار کرلیا ہے ۔ ہندوستان میں سیاسی فنڈنگ کے لیے غیر شفاف فریم ورک سامنے آیا ہے ۔ بی جے پی کے تجارتی گھرانوں نے یا خانگی ملکیت کے صنعتی اداروں نے گمنام طریقہ سے انتخابی بونڈس خریدتے ہوئے قومی حکمراں پارٹی کو فائدہ پہونچایا ۔ اپوزیشن کے الزامات کے تناظر میں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا مودی اپنے بڑے تجارتی دوستوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے باعث ہونے والے سیاسی خسارہ کو کس طرح بیان کریں گے ۔ مودی نے جن تاجر دوستوں کو رقمی فوائد پہونچائے ان کی فہرست بھی بی جے پی لیڈر مرلی منوہر جوشی زیر قیادت پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے طلب کردہ فہرست سے ملتی ہے ۔ جس میں 2015 میں اس وقت کے گورنر آر بی آئی رگھورام راجن کی جانب سے روانہ کردہ فہرست میں ان بڑے تاجر دوستوں کے نام شامل ہیں ایسے تاجروں میں جنہوں نے بنکوں سے کروڑہا روپئے کا قرض لیا تھا اور اس رقم کو دیگر مقاصد میں مشغول کر کے بینکوں کا قرض واپس کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ۔ اس سلسلہ میں رگھورام راجن نے پی ایم او سے درخواست کی تھی کہ اس واقعہ کی سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کرائی جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ کیوں کہ ان میں کئی بڑے تاجر حکمراں پارٹی سے وابستہ ہیں ۔ رافیل معاہدہ ہو یا بنکوں کو دھوکہ دینے کا کیس یا کسی اور معاملوں میں حکمراں پارٹی سے وابستہ طاقتور افراد ہی ملوث ہیں ۔ جن کی کڑی وزیراعظم مودی سے جا ملتی ہے ۔ اپوزیشن کے ان تمام الزامات کا جائزہ لیا جائے تو حکمراں پارٹی نے نہ صرف دن دھاڑے قومی سلامتی سے سمجھوتہ کیا ہے بلکہ سیاسی بدعنوانیوں کا بڑا پہاڑ کھڑا کیا ہے ۔ حکمرانی کے فرائض میں اخلاقی سطح پر دیوالیہ پن کا مظاہرہ ہورہا ہے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس حکومت کی صورت سے کسی کی صورت نہیں ملتی پھر بھی عوام اس کی تصویر لئیے پھر رہے ہیں ۔۔