کھائی شکست تو انھیں معلوم ہوگیا
حاکم وہی بنتے ہیں جو خادم ہوں قوم کے
سیاسی جماعتوں میں اتھل پتھل
انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے بعد ملک کی تقریبا سیاسی جماعتوں میں اتھل پتھل شروع ہوگئی ہے ۔ بی جے پی جہاں انتخابات میں اپنی توقعات سے زیادہ کامیابی پر مسرور ہے اور اقتدار ملنے کی خوشی میں اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے وہیں انتخابات میں شکست کھانے والی جماعتیں شکست کے اسباب کا جائزہ لینے میں مصروف ہوگئی ہیں ۔ انتخابات سے قبل یہی جماعتیں اپنی کامیابی کے تعلق سے پرامید تھیں یا پھر انہیں یہ امید ضرور تھی کہ ان کا انتخابات میں تقریبا مکمل صفایا نہیں ہوگا ۔ بی جے پی کو بھی کامیابی کی امید ضرور رہی ہوگی تاہم جس تعداد میں اسے نشستیں حاصل ہوئی ہیں شائد اسے اتنی امید نہیں رہی ہو۔ ملک میں تقریبا تمام سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج کی وجہ سے پریشان ہیں۔ صرف ٹاملناڈو میں جئے للیتا کی قیادت والی آل انڈیا انا ڈی ایم کے اور مغربی بنگال میں ممتابنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس کو بی جے پی یا مودی کی زبردست انتخابی تشہیر کے باوجود کوئی اثر نہیں ہوا ہے اور انہو ںنے اپنے اپنے انداز میں پہلے سے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ کانگریس زیر قیادت یو پی اے میں شامل تقریبا تمام جماعتیں انتہائی شکست کا شکار ہوئی ہیں۔ بائیں بازو محاذ کی جماعتوں کاوجود خطرہ میں پڑتا نظر آ رہا ہے ۔ انہیں جو شکست ہوئی ہے وہ شائد ان کے خواب و گمان میں بھی نہیں رہی ہوگی ۔ این سی پی کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ بہار میں جے ڈی یو کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اتر پردیش میں برسر اقتدار سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی عوامی تائید سے محروم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ کرناٹک میں جنتادل سکیولرکا اپنا اثر ختم ہوتا نظر آر ہا ہے ۔ اوڈیشہ میں تاہم بیجو جنتادل نے اپنا اثر برقرار رکھا ہے اور اس نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے ۔ عام آدمی پارٹی سوائے پنجاب کے کسی اور ریاست میں اپنا اثر دکھانے یا کم از کم کوئی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔
کانگریس کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ ملک میں بہت سوں کیلئے توقعات کے برخلاف ہے ۔ اب شکست کے بعد تقریبا تمام جماعتیں شکست کے اسباب کا پتہ چلانے اور اپنے لئے نئے سہارے اور اتحاد تلاش کرنے میں مصروف ہوگئی ہیں ۔ نئے اتحاد بھی تلاش کئے جا رہے ہیں۔
کانگریس پارٹی نے شکست کے بعد اسباب تلاش کرتے ہوئے خود کو سنبھالنے کی تگ و دو شروع کردی ہے ۔ کچھ قائدین کو ذمہ داریاں دی جا رہی ہیں تو کچھ قائدین سے ذمہ داریاں واپس لی جا رہی ہیں۔ کچھ نئے چہرے بھی متعارف کئے جاسکتے ہیں جو عوام میں پارٹی کے موقف کو پیش کرسکیں۔ اتر پردیش میں خاص طور پر سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی جو حالت ہوئی ہے اس سے وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہیں۔ اتنی بڑی شکست ان کی توقعات کے بہت زیادہ برخلاف تھی اور شائد اسی کا اثر ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے بڑے فیصلے کرنے شروع کردئے ہیں۔ ریاستی سطح کی کمیٹیاں اور اس سے ملحقہ کمیٹیاں تحلیل کردی گئی ہیں ۔ سماجوادی پارٹی نے پارٹی کے کئی اہم قائدین کو مراعات اور عہدوں سے عملا برطرف کردیا ہے ۔ بہوجن سماج پارٹی بھی اپنے طور پر شکست کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پارٹی میں نئی جان ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہوگی ہے ۔ ان دونوں جماعتوں کیلئے یہ اندیشے لاحق ہوگئے ہیں کہ جس طرح لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی ملی ہے اگر اسمبلی انتخابات میں بھی اسے یہی کامیابی ملے تو ان دونوں جماعتوں کا اتر پردیش کے سیاسی منظر نامہ سے صفایا ہوجائیگا ۔ اپنے اقتدار سے محرومی کے اندیشے نے ان جماعتوں کو شکست کے اسباب تلاش کرنے اور خود کو عوامی حلقوں میں برقرار رکھنے کی جدوجہد کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ یہ ان جماعتوں کیلئے لمحہ فکر ضرور ہے ۔
جہاں تک کمیونسٹ جماعتوں کا سوال ہے انتخابات میں اس بار انہیں جو شکست ہوئی ہے وہ دور رس اثرات کی حامل کہی جاسکتی ہے ۔ بائیں بازو کی جماعتوں کی عوامی تائید مسلسل گھٹتی جا رہی ہے جس سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان کی پالیسیاں اب عوام کیلئے قابل قبول نہیں رہی ہیں۔ کانگریس ہو کہ بہوجن سماج پارٹی ہو ‘ سماجوادی پارٹی ہو کہ کمیونسٹ جماعتیں ہوں عام آدمی پارٹی ہوکہ ٹاملناڈو کی ڈی ایم کے ہو یا شرد پوار کی این سی پی ہو ان تمام جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ عوامی ترجیحات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کے مطابق اپنی پالیسیاں تیار کریں۔ اپنے نظریات کو متاثر کئے بغیر عوامی مزاج کے مطابق خود کو ڈھالنا ان کی سیاسی کامیابی ہوسکتی ہے ۔ جو اتھل پتھل تمام جماعتوں میں شروع ہوئی ہے اگر وہ صرف دکھاوے کیلئے ہے تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ ان جماعتوں کو اپنے آپ کو عوام کی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق ڈھالنا ضروری ہوگی اور عوامی سطح پر اپنے آپ کو دوبارہ واپس لانے کی یہی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے ۔