سیاسی انحراف پسندی

خودغرضیاں ہیں غالب اس درجہ سیاست پر
گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں قائدین
سیاسی انحراف پسندی
سیاسی قائدین کی وفاداری تبدیل ہونے کا رجحان نیا نہیں ہے۔ ہر پارٹی کو اپنے ناراض یا مفاد پرست سیاستدانوں کی انحراف پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاستدانوں میں چند ایسے سیاستداں بھی ہوتے ہیں جو صرف وقتی پارٹی وابستگی اور سیاسی فوائد کو ترجیح دیتے ہیں۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد ٹی آر ایس میں شامل ہونے کی آرزو میں کئی سیاستدانوں نے اپنی پارٹیوں کو خیرباد کہہ دیا۔ کانگریس سب سے زیادہ متاثر رہی ہے۔ تلگودیشم کے ارکان نے بھی ٹی آر ایس میں شمولیت کے ذریعہ تلنگانہ میں اپنے لئے کچھ منفعت بخش دن گذارنے کا بندوبست کیا ہے۔ سیاسی انحراف پسندی کو ایک ناپسندیدہ عمل قرار دیا جاتا ہے مگر جمہوریت کا حوالہ دے کر جب کوئی عوامی نمائندہ اپنی مرضی و من مانی کو ہی جائز قرار دیتا ہے تو اس کی ایمانداری اور دیانتداری بھی عیاں ہوجاتی ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس کو کئی طرح کے نقصانات کا شکار ہونا پڑا ہے۔ اول تو وہ ایک مضبوط کیڈر سے محروم ہوگئی۔ رائے دہندوں کی ہمدردی بھی باقی نہیں رہی اور اس کے قائدین بھی مایوسی کا شکار ہوکر دوسری پارٹیوں میں خاص کر حکمراں پارٹی میں ہی آسرا تلاش کررہے ہیں۔ تلنگانہ قانون ساز اسمبلی میں کانگریس نے انحراف کرنے والے قائدین کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ عدالت سے بھی رجوع ہونا چاہتی ہے۔ اصل پارٹی سے نکل کر دوسری پارٹی میں شامل ہونے کے عمل کو قانونی نکتہ نظر سے چیلنج کرنے کی گنجائش ہے۔ ماضی میں بھی اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن نتائج غیرمتوقع ہی رہے ہیں۔ تلنگانہ اسمبلی میں بھی اس موضوع پر بحث و مباحث، منحرف قائدین کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کانگریس نے اسپیکر اسمبلی کو درخواست دی ہے۔ اسپیکر مدھوسدھن چاری کو کانگریس کی درخواست کا جائزہ لینا ہے۔ انسداد انحراف پسندی قانون اس لئے وضع کیا گیا تھا اور جو سیاستداں پارٹیاں بدلتے ہیں خاص کر ایک پارٹی کی ٹکٹ سے منتخب ہوکر بعدازاں دوسری پارٹیوں میں شامل ہوتے ہیں انہیں ایوان کی رکنیت سے نااہل قرار دینے کی قانونی گنجائش ہے مگر جب کوئی لیڈر حکمراں پارٹی کا وفادار بن جاتا ہے تو حکمراں پارٹی بھی افسوسناک حد تک تمام قواعد کو بالائے طاق رکھ کر اس کے تحفظ کو آگے آتی ہے ایسے میں اسپیکر سے لیکر قانون کے دیگر ذمہ داروں کی جانب سے انحراف کرنے والے قائدین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی یا پھر ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کانگریس کے قائدین نے بھی وفاداری تبدیل کرکے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان کے خلاف کارروائی اسپیکر کا فرض ہے مگر اس مسئلہ پر اسمبلی میں بحث کے بجائے تنازعہ سے بچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسمبلی میں پیش کردہ تحریک التوا پر بحث کرنے کیلئے دباؤ ڈالتے ہوئے کانگریس ارکان نے احتجاج کیا ہے جبکہ کانگریس کو یہ اچھی طرح معلوم ہیکہ انحراف پسندی کی سیاست کو کس نے ہوا دی تھی۔ ماضی میں جب اس کے پاس اقتدار تھا تو اس نے دیگر پارٹی کے قائدین کو راغب کراتے ہوئے انہیں ورغلایا تھا۔ ایسے کئی واقعات ملک بھر کی مختلف ریاستوں کی سیاسی تاریخ میں درج ہیں۔ تلنگانہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ یہ عمل ایک معیوب اور افسوسناک ہے۔ عوام نے جس لیڈر کو ووٹ دیا ہے وہ پارٹی نشان کے عوض دیا ہے۔ اب کوئی لیڈر اپنی وفاداری تبدیل کرتا ہے تو اسے قانون کے مطابق عوام کا تازہ خط اعتماد لینا ہوتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی خاص کر حکمراں پارٹی میں شامل ہونے والوں کو عہدے دیئے جاتے ہیں تو یہ دیگر قائدین کو بھی للچانے والے کام ہوتے ہیں۔ مرکز میں بھی نریندر مودی زیرقیادت حکومت نے اپنے حالیہ کابینی ردوبدل میں ان قائدین کو قلمدان دیئے جنہوں نے اپنی اصل پارٹیوں کو چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ قومی و علاقائی سیاست میں انحراف پسندی کو بڑھاوا دینے کا کانگریس پر بھی الزام ہے۔ اس نے تمام ریاستوں میں کئی پارٹیوں میں پھوٹ ڈالنے اور دیگر سیاستدانوں کو پارٹی میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے جہاں کہیں کانگریس اقتدار میں رہی اس نے اپوزیشن ارکان کو انحراف کی ترغیب دی اب اسے تلنگانہ میں اس معیوب عمل کا شکار ہونا پڑ رہا ہے ۔ سیاسی پارٹیوں کو اپنے اصولوں کو ازخود وضع کرنے ہوں گے تاکہ کسی بھی پارٹی میں انحراف یا پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ حکمراں پارٹیوں کے مزاج میں تبدیلی لازمی ہے۔ ایسے سیاسی کلچر کو ختم کرنے کیلئے انسداد انحراف قانون کو سختی سے روبہ عمل لایا جانا چاہئے۔ کانگریس کو بھی اپنے سیاسی کلچر پر ناقدانہ نظر ڈالنی چاہئے۔ جمہوری ڈھانچے میں پارٹی وفاداری اور نظریاتی کمٹ منٹ کو مرکزی حیثیت دی جائے تو مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔ سیاسی بے وفائی، پارٹیاں بدلنا اور سیاست کو اپنے مطلب اور ضروریات کے طور پر استعمال کرنا اگر صدیوں پرانا طریقہ ہے تو اس طریقہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔