وہی قاتل وہی مخبر وہی منصف ٹہرے
اقرباء میرے کریں خون کا دعوی کس پر
سیاسی انتقام اور تحقیقاتی ایجنسیاں
ہندوستان کی دیرینہ اور قدیم روایات کے مطابق مخالفین اور اختلاف رائے کا احترام کیا جاتا تھا ۔ حالیہ چند برسوں قبل تک بھی یہ روایات برقرار رہی تھیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ بتدریج ان روایات کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے اور سیاسی مخالفین اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو نشانہ بناتے ہوئے انتقامی کارروائیاں عام بات ہوتی جا رہی ہیں۔ اس طرح کی کارروائیاں صرف سیاسی مخالفین تک محدود نہیںہیں بلکہ نظریاتی اختلاف رکھنے والوںکو بھی حکومتیں برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ سیاست میں تو ویسے بھی اختلافات عام بات ہیں اور نظریات سے اتفاق یا اختلاف بھی ہر کسی کا انفرادی اور بنیادی حق ہے ۔ ہر کوئی اپنی بات کہنے کا حق رکھتا ہے تو ہر ایک کو دوسرے کی رائے سے اختلاف کرنے کا حق اور اختیار بھی اس ملک میں حاصل ہے ۔ اس کے باوجود انتقامی جذبہ سے نشانہ بنانے اور مقدمات کا شکار کرنے کی روایات عام ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ لعنت کسی ایک مقام تک محدود نہیں ہے ۔ ملک گیر سطح پر اس کا چلن ہو چکا ہے اور حکومتیں اپنی اس انتقامی کارروائی کی نت نئی توجیحات پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ ویسے تو حکومتیں برسوں سیاسی مقدمات کو برفدان کی نذر کردیتی ہیں اور بار بار توجہ دہانی کے باوجود ان پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی لیکن جب کبھی حکومتوں کے مفادات کا مسئلہ درپیش آتا ہے تو برسوں قدیم مقدمات بلکہ دہوں قدیم مقدمات کو بھی اٹھایا جاتا ہے اور پھر انتقامی کارروائیوں کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ مرکز میں نریندرمودی کی قیادت میںبی جے پی حکومت اور تلنگانہ میںکے چندر شیکھر راو کی ٹی آر ایس حکومت نے حالیہ دنوںمیں اس کی واضح مثالیں پیش کی ہیں۔ سیاسی اختلاف رکھنے والوںکو نشانہ بناتے ہوئے جہاں مقدمات دائر کئے جا رہے ہیں وہیں نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو بھی بخشا نہیں جا رہا ہے اور انہیں تو قوم مخالف اور قوم دشمن تک قرا ر دیا جا رہا ہے ۔ایسا کرنے میں میڈیا بھی برابر کا حصہ دار ہے اور ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر ان کی بکواس سے اتفاق نہ کرنے والوں کی شبیہہ اس طرح سے بگاڑ کر پیش کی جاتی ہے کہ لوگ انہیں خطرناک مجرم یا پھر قوم دشمن سمجھنے لگ جائیں۔
مخالفین کو مقدمات میں پھانسنے کی جو روایات شدت اختیار کر رہی ہیں وہ ہندوستانی جمہوریت کیلئے اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی ۔ کہیں طلبا یونین کے قائدین کو مختلف نظریہ اور طرز فکر سے تعلق رکھنے کی پاداش میں قوم دشمن قرار دے کر جیل بھیج دیا جاتا ہے تو کہیںسماجی جہد کاروں کو ’ شہری نکسل ‘ قرار دیتے ہوئے گرفتار کیا جا رہا ہے ۔ کہیں سیاسی مخالفت کرنے والوںکو قدیم مقدمات کی گرد جھاڑ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ جو مقدمات پہلے سے درج ہیں ان پر کارروائی کے بہانے ایسا کیا جا رہا ہے اور یہ استدلال پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ تو قدیم مقدمات ہیں۔ یقینی طور پر یہ مقدمات قدیم ہیں لیکن یہ جواب بھی حکومت اور حکومت کے اشاروں پر کام کرنے والی ایجنسیوں کو دینا ہوگا کہ اتنے برسوں تک کیوں ان مقدمات میں کوئی پیشرفت نہیںہوسکی ہے ؟ ۔ اتنے برس تک ان مقدمات میںپیشرفت کی راہ میں کیا رکاوٹ حائل تھی ۔ اس تاخیر کی وجہ کیا تھی ۔ کسی کے خلاف مقدمات کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے نظام قانون اور تحقیقاتی اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں میںعوامی اعتماد ختم ہونے لگتا ہے ۔ یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ حکومتیں تحقیقاتی اور نفاذ قانون کی ایجنسیوںکو کنٹرول کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے استعمال کر رہی ہیں۔
اپنے نظریات سے اختلاف کرنے والوںکو اور مختلف نظریہ کی حمایت کرنے والوںکو قوم مخالف قرار دینے کی ایک نئی روایت پیدا ہوگئی ہے ۔ عدم رواداری کی لہر چلانے کے بعد اب اختلاف رائے رکھنے والوںکو پھانسنے کی روایت شروع ہوچکی ہے ۔ یہ سب کچھ ہندوستانی جمہوریت کیلئے منفی علامتیں ہیں۔ ان سے ہماری جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہوتی جا رہی ہیں اور ان کو بچانے کیلئے ہر کسی کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا کرنے والوںکو بھی مقدمات کا سامنا کرنا پڑے اور حکومت انہیں بھی نشانہ بنانے کی کوشش کرے لیکن ملک اور ملک میںجمہوری اصولوں کو بچانے کیلئے ہر متفکر اور ذمہ دار شہری اور ادارہ و تنظیم کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا تاکہ آئندہ اس طرح کی انتقامی سیاسی کا تدارک ہوسکے ۔