کشمیر سے زیادہ بلوچستان کی فکر
غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم
رشیدالدین
کسی بھی حکومت کی کامیابی کا اندازہ داخلی اور خارجہ پالیسی کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ اگر دونوں پالیسیاں ملک کے عین مفاد میں ہوں تو نہ صرف عوام بلکہ بین الاقوامی برادری کی بھی تائید حاصل ہوتی ہے۔ مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے 2 برسوں میں مایوس کردیا ہے۔ وعدوں کی عدم تکمیل کے سبب عوام مایوس ہیں تو بین الاقوامی برادری کی خارجہ پالیسی میں استقلال کی کمی نے اُلجھن میں مبتلا ء کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانی کیلئے تجربہ کو دیکھا جاتا ہے۔ نریندر مودی کے پاس قومی سطح کا کوئی تجربہ تو نہیں لیکن سنگھ پریوار کی سرپرستی ضرور حاصل ہے۔2سال میں 50 بیرونی دورے کرنا کامیاب خارجہ پالیسی کی علامت نہیں ہے بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ان دوروں سے ہندوستان کو کس قدر فائدہ ہوا۔ اسی طرح حقیقی معنوں میں رعایا پرور حکمراں وہی ہوتا ہے جس کی مملکت کا کوئی بھی حصہ خوشحالی اور ترقی کے ثمرات سے محروم نہ ہو۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو نریندر مودی حکومت کو کسی بھی محاذ پر کامیاب کہنا مشکل ہے۔ کشمیر کی ابتر صورتحال سے پہلوتہی اور فرائض سے غفلت کی مثال سابق میں شاید کسی حکومت میں دیکھنے کو ملی ہو۔ کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ قرار دینے میں تو حکومت اور اس میں شامل افراد میں دوڑ ہے لیکن کشمیریوں کے دَرد کو محسوس کرنے تیار نہیں۔ کیا کشمیر آبادی کے بغیر صرف ایک علاقہ ہے جس کا تحفظ فوج کے ذمے ہے؟ کیا کشمیر میں بسنے والے ہندوستانی نہیں ہیں۔؟ پھر کیا بات ہے کہ گذشتہ 40 دن سے حالات سدھرنے کے بجائے مزید ابتر ہورہے ہیں۔ وادی میں عام زندگی مفلوج ہوچکی ہے اور مقامی حکومت کا عملاً کوئی کنٹرول نہیں۔ کیا یہ ہندوستانی حقوق کی ادائیگی کا مسئلہ نہیں ہے؟ کیا مرکز کو اس طرح تماش بین کا رول ادا کرنا زیب دیتا ہے؟۔ 15 اگسٹ کو سارے ملک نے آزادی کے 70 سال کا جشن منایا لیکن کشمیر میں عوام اپنی ہی فوج اور سیکورٹی فورسیس کے ذریعہ مقید کردیئے گئے تھے۔40 دن گذرنے کے باوجود شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام کرفیو کی پابندی کو توڑ کر سڑکوں پر آرہے ہیں وہ اس لئے نہیں کہ غذائی اشیاء سربراہ کی جائیں بلکہ وہ انصاف کی مانگ کررہے ہیں۔ آخر ان کی آواز دہلی کے ایوانوں تک کیوں نہیں پہونچ رہی ہے۔ کیا ریاست اور مرکز کی ذمہ داری نہیں کہ حالات کو قابو میں کرنے کیلئے عوام کو اعتماد میں لے۔ صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی سے کچھ نہیں ہوگا۔ پی چدمبرم نے درست کہا کہ ’’ صورتحال بہتر بنانے کیلئے پی ڈی پی، کانگریس اور نیشنل کانفرنس کو اتحاد قائم کرنا ہوگا۔‘‘ چدمبرم کے اس بیان پر بی جے پی وایلا مچار ہی ہے، اسے دراصل اقتدار سے محرومی کا خوف ہے۔ پہلی مرتبہ مسلم اکثریتی ریاست میں اقتدار کا خواب پورا ہوا تھا جو کسی بھی وقت خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ چدمبرم نے وہی بات کہی جو غلام نبی آزاد نے پارلیمنٹ میں کہی تھی کہ ’’ وادی میں بی جے پی کو عوام قبول نہیں کریں گے۔‘‘ کشمیر کے بارے میں مرکز کا رویہ اور بے لگام سنگھ پریوار قائدین کے بیانات نے بھی صورتحال کو بگاڑنے کا کام کیا۔ ملک کے وزیر اعظم خود کو سب سے بڑا دیش بھکت ظاہر کرتے ہیں اور’’ سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس ‘‘ ان کا نعرہ ہے۔ کیا کشمیری عوام اس نعرہ کے تحت نہیں آتے۔؟
صورتحال تو یہ ہوچکی ہے کہ نریندر مودی کو اپنوں سے زیادہ دوسروں کی فکر ہے۔ ’’ غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم ‘‘ کے مصداق نریندر مودی گھروالوں سے زیادہ پڑوس سے ہمدردی کررہے ہیں۔ کیا کشمیر میں صورتحال کو معمول پر لانے کا یہی طریقہ ہے۔؟ مودی نے یوم آزادی کے موقع پر کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے مزید کُریدنے کا کام کیا۔ دنیا بھر کی نظریں تھیں کہ مودی لال قلعہ کی فصیل سے کشمیر کیلئے کیا اعلان کریں گے۔ لیکن دیڑھ گھنٹہ طویل تقریر میں انہیں کشمیر کا خیال نہیں آیا۔ اگر کشمیر میں کسی اور پارٹی کی حکومت ہوتی تو کیا مرکز اس طرح خاموشی اختیار کرتا۔؟ محبوبہ مفتی نے بھی موجودہ صورتحال کے لئے مرکز کو ذمہ دار قرار دیا۔ کشمیر کے حالات سے متعلق خبریں سنسر کے بعد آرہی ہیں اور حالات کے معمول پر آنے کے بعد ہی مظالم کی حقیقی صورتحال منظرِ عام پر آئے گی۔ کشمیری عوام کا ہندوستان پر احسان ہے جنہوں نے تقسیم کے وقت ہندوستان کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ ان کے اس احسان اور وطن سے محبت کا صلہ کیا یہی ہے کہ انہیں سیکورٹی فورسیس کے رحم و کرم پر اس طرح چھوڑ دیا جائے جیسے شکاری کے سامنے جانور۔ جب کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے تو یقینی طور پر شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری فوج اور سیکورٹی فورسیس پر عاید ہوتی ہے۔ مرکز میں بی جے پی برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے کشمیر پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اسمبلی انتخابات کے وقت پیاکیج کا اعلان ابھی تک عمل آوری سے دور ہے۔ مرکز کی ہر حکومت بشمول اٹل بہاری واجپائی نے کشمیر کے لئے بحالی اعتماد اقدامات شروع کئے تھے لیکن مودی حکومت میں یہ لفظ سنائی نہیں دے رہا ہے۔ مودی کو کشمیری عوام سے زیادہ بلوچستان کے عوام کی واہ واہی کی فکر ہے۔ سیاسی مصلحت پسندی، پاکستان پر دباؤ بنانے یا پھر کسی اور حکمتِ عملی کے تحت بلوچستان اور پاک مقبوضہ کشمیر کا تذکرہ درست مان بھی لیا جائے، پھر بھی اپنے کشمیری عوام کو بھُلا دینے کی ہرگز تائید نہیں کی جاسکتی۔
کشمیر میں صورتحال معمول پر لانے کے بجائے لال قلعہ سے کی گئی نریندر مودی کی تقریر نے دنیا بھر میں ہندوستان کی ساکھ کو متاثر کردیا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار قائدین سینہ ٹھوک کر وزیر اعظم کی ’’ جرأت مندی‘‘ کی ستائش کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان اور POK کا تذکرہ مسئلہ کشمیر کے حل میں مزید پیچیدگی کا سبب بن سکتا ہے۔ ہند ۔ پاک تعلقات اور ممالک کے درمیان تنازعات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا احساس ہے کہ بلوچستان کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کو تنقیدوں کا نیا موقع فراہم کردیا گیا ہے۔ ملک کی حساس سرحدی ریاست میں قیامِ امن کے لئے پاکستان کا تعاون ضرور کیا ہے اور سابق میں ہر حکومت نے اس حقیقت کو تسلیم کیا تھا۔ بلوچستان میں پاکستانی مظالم کا تذکرہ کرنے سے قبل نریندر مودی گجرات فسادات کو بھول گئے جو کہ ان کی ناک کی نیچے ہوئے تھے۔ مودی کی چیف منسٹری میں ہندوستانی تاریخ کے بدترین فساد میں3500 سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ آخران بے قصوروں کا جرم کیا تھا؟ آج تک بھی متاثرین انصاف سے محروم ہیں اور قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کے حالات سے بدتر گجرات فسادات تھے اور آج کے وزیر اعظم ہی وہاں کے چیف منسٹر تھے۔ اگر نواز شریف 14اگسٹ کے خطاب میں گجرات فسادات کا ذکر کرتے تو ہندوستان پرکیا گذرتی۔؟ الغرض ! اس طرح کی تقاریر سے کشمیر میں در اندازی اور دہشت گردی کی سرپرستی کے خلاف ہندوستان کا کیس کمزور ہوسکتا ہے۔ اُتر پردیش انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے لال قلعہ کی تقریر تیار کی گئی۔ اس طرح کی تقاریر سے بھلے ہی ووٹ حاصل ہوجائیں، لیکن ملک کے وقار کو کیسے بچائیں گے۔ نریندر مودی نے دونوں ممالک کی تہذیبوں کا بھی غیر منصفانہ انداز میں تقابل کیا۔ تقسیم سے قبل چونکہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی ہندوستان کا حصہ تھے لہذا تینوں ممالک کی تہذیب ایک ہی ہے اس میں بھی ایک کو برا اور دوسرے کو اچھا کہنا انصاف کے مغائر ہے۔ پشاور کے حوالہ سے مودی نے جس تہذیب کو نشانہ بنایا وہ تو سرحدی گاندھی کی تہذیب کا علاقہ ہے۔ وزیر اعظم نے بلوچستان اور مقبوضہ کشمیر کا ذکر تو کیا لیکن وہ 1962 میں چین کی جانب سے قبضہ کئے گئے علاقوں کو کیوں بھول گئے۔؟ چین آج بھی اروناچل پردیش پر اپنی دعویداری برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ارونا چل اور اُترا کھنڈ کے علاقے چینی افواج کیلئے گھر آنگن کی طرح ہیں، اس پر خاموشی معنٰی خیز ہے ۔ دراصل مرکز میں حکمرانی کے تجربہ کی کمی کا یہ نتیجہ ہے کہ خارجہ پالیسی میں استقامت نہیں ہے۔ دوستی میں بھی حد سے تجاوز اور دشمنی میں بھی پاکستان کے خلاف تقاریر سے ووٹ حاصل کرنے کے بعد اپنی حلف برداری میں نواز شریف کوکس نے بلایا تھا اور آج مذاکرات سے انکار ، کشمیر سمیت تمام زیر تصفیہ مسائل پر مذاکرات کیلئے شملہ معاہدہ کی رو سے دونوں ممالک پابند ہیں۔
صرف دہشت گردی اور مقبوضہ کشمیر پر بات چیت کا موقف شملہ معاہدہ کے مغائر ہے۔ ہٹ دھرمی کا یہ رویہ مسئلہ کشمیر کا پرامن اور خوشگوار قابل قبول حل تلاش کرنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ کشمیرمیں اقتدار کی حلیف محبوبہ مفتی نے خود دونوں ممالک میں مذاکرات کی اپیل کی ہے۔ اگر ہندوستان کو مذاکرات سے انکار ہے تو پہلے شملہ معاہدہ کی منسوخی کا اعلان کرے اور پھر سارک سے خود کو علحدہ کرکے دکھائے۔ دراصل وزیر اعظم اسی سنگھ پریوار کی دہشت سے متاثر ہیں جو اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگاتے ہیں۔ آج تک بھی سنگھ پریوار نے تقسیم کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق ناتجربہ کار وزیر اعظم کے سبب یہ صورتحال ہے، ایک ریاست کے چیف منسٹر کو وزیر اعظم اور دوسری ریاست کے چیف منسٹر کو وزیر دفاع جیسے عہدوں پر فائز کردیا گیا۔ کانگریس نے راہول گاندھی کو وزیر اعظم بنانے کی تیاری کی تھی ، اگر وہ بھی بن جاتے تو اسی طرح کی غلطیاں سرزد ہوتیں۔لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی ، وی پی سنگھ ، دیوے گوڑا، آئی کے گجرال اور پی وی نرسمہا راؤ یہ تمام مرکز میں حکمرانی کا کسی نہ کسی نوعیت سے تجربہ رکھتے تھے۔ ناتجربہ کاری کی ایک اور مثال وزیر دفاع منوہر پریکر ہیں جنہوں نے پاکستان کو ’’ جہنم ‘‘ کہہ دیا۔ پاکستان جانے کو جہنم جانے کے برابر کہنے والے وزیر دفاع سے کوئی یہ پوچھے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے نواز شریف کی سالگرہ میں شرکت کیلئے جو اچانک دورہ کیا تھا وہ کس زمرہ میں آئے گا۔؟ کیا مودی جہنم گئے تھے۔؟گذشتہ دنوں راج ناتھ سنگھ بھی اسلام آباد کا دورہ کرچکے ہیں تب انہیں ’’ جہنم ‘’ میں جانے سے کیوں نہیں روکا۔؟ وزیر اعظم کیلئے نومبر میں دوسری مرتبہ دورہ پاکستان کے امکانات برقرار ہیں، جب وہاں سارک چوٹی کانفرنس ہوگی سابق میں اٹل بہاری واجپائی اور اڈوانی بھی پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں، منوہر پریکر انہیں کیا کہیں گے ۔؟ پاکستان کو جہنم قرار دیتے ہوئے وزیر دفاع بھول گئے کہ اس سے سکھ طبقہ کی دل آزاری ہوئی ہے۔ گرونانک کاجائے پیدائش ننکانہ صاحب پاکستان میں ہے اور سکھ بڑی عقیدت سے وہاں جاتے ہیں جبکہ ویزا کے حصول میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ وزیر دفاع کو سرحدوں کی حفاظت سے زیادہ پاکستان پر تنقید میں مزہ آرہا ہے۔ دراصل مخالف پاکستان بیانات کے سلسلہ میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین میں مسابقت جاری ہے۔ اس طرح کی ذہنیت اندرون ملک مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔ نریندر مودی حکومت کو کشمیر کے تمام گروپس، حریت قائدین اور پاکستان سے مذاکرات کی پہل کرنی چاہیئے۔ سیاسی جماعتیں وہاں کے عوام کی ترجمان نہیں ہوسکتیں۔ عوام یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیںکہ آیا واقعی نریندر مودی سنجیدہ ہیں یا پھر میچ فکسنگ کا حصہ ہے تاکہ نواز شریف کو مضبوط کیا جائے۔ منور رانا نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا :۔
سیاست کی کسوٹی پر پرکھیئے مت وفاداری
کسی دن انتقاماً میرا غصہ بول سکتا ہے