مصلحت ساز ، اس زمانے میں
غیر ممکن ہے پارسا ہونا
سیاست دانوں پر حملے
سیاست دانوں پر حملوںکے واقعات میں گذشتہ عرصہ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ سماجی و سیاسی کارکن ہوں یا دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان ہوں ‘ کسی نہ کسی موقع پر اپنے مخالف سیاسی لیڈر اور سیاست دان پر حملے کرنے لگے ہیں۔ یہ حملے سیاہی پھینک کر کئے جا رہے ہیں یا جوتے پھینکے جا رہے ہیں۔ گذشتہ چند دن قبل ہی چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال پر ایک خاتون نے سیاہی پھینکی تھی ۔ یہ خاتون بھی کجریوال کی پالیسیوں اور ان کے کاموں سے خوش نہیں تھی ۔ اس نے کجریوال پر جملے کستے ہوئے یہ حملہ کیا تھا ۔ آج بہار میں چیف منسٹر نتیش کمار پر جوتا پھینکا گیا ۔ حالانکہ یہ جوتا نشانہ سے چوک گیا اور نتیش کماراس میں محفوظ رہے لیکن یہ واضح ہوگیا ہے کہ سیاسی اختلاف رائے کو بھی اب کوئی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ پہلے ہی ملک میں رواداری اور عدم رواداری کے مسئلہ پر مباحث چل رہے ہیں۔ ملک میں ایک دوسرے سے اختلاف کو کوئی بھی برداشت کرنے تیار نظر نہیں آتا ۔ مذہبی ‘ ذات پات و دیگر امور پر اختلاف رائے میں حالیہ عرصہ میں شدت آنے لگی تھی اور یہ تاثر عام تھا کہ سیاسی اختلاف رائے ہی ایک ایسا اختلاف ہے جس پر کسی طرح کی شدت عملی اختلاف کی شکل اختیار نہیں کریگی لیکن ایسا لگتا ہے کہ لوگ سیاسی اختلاف بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اپنے جذبات کا جس بے ڈھنگے انداز میںاظہار کرنے لگے ہیں وہ ناقابل برداشت ہے ۔ کسی سیاسی لیڈر کے سامنے احتجاج کی کوئی وجہ بھی ہونی چاہئے ۔ احتجاج ہر شہری کا حق ہوسکتا ہے لیکن اس کے طریقہ کار کو مہذب رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اروند کجریوال ہوں ‘ نتیش کمار ہوں یا دوسری جماعتوں کے قائدین ہوں ‘ ہر ایک کا اپنا ایک سیاسی نظریہ ہے ‘ ہر ایک کا اپنا کام کرنے کا انداز ہے اور متعلقہ ریاستوں کے عوام نے ہی انہیں ووٹ دے کر اقتدار بخشا ہے اور وہ چیف منسٹر کی کرسی پر براجمان ہیں۔ یقینی طور پر ان سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ ان کے کام کاج سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس اختلاف کی بنیاد پر اس طرح کے حملے کرنے کا کوئی جواز نہیںہوسکتا ۔ سیاسی میدان میںاختلافات عام بات ہیں لیکن انہیںاختلاف رائے تک محدود رکھنے کی ضرورت ہے ۔
ویسے تو سیاسی قائدین کو اس طرح کے حملوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ عراق سے شروع ہوا تھا جہاں ایک صحافی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے صدر امریکہ جارج بش پر جوتا پھینکا تھا ۔ اس کے بعد سے یہ سلسلہ شروع ہوگیا ۔ کچھ لوگوں نے تو محض تشہیر کیلئے اس طرح کی حرکتیں کی ہیں ۔کچھ وقت تک یہ سلسلہ شدت کے ساتھ چلتا رہا تھا تاہم درمیان میں یہ رک گیا تھا ۔ گذشتہ دنوں ایسا لگتا ہے کہ اس کا احیاء عمل میں آیا ۔ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال پر سیاہی پھینکے جانے سے قبل ممبئی میں سابق وزیر خارجہ پاکستان خورشید قصوری کی کتاب کی رسم اجرا تقریب منعقد کرنے کی پاداش میں ایک شخص پر سیاہی پھینکی گئی تھی ۔ پھر اروند کجریوال کا واقعہ پیش آیا اورا ب نتیش کمار پر جوتا پھینکا گیا ہے ۔ یہ واقعات ہندوستانی تہذیب اور روایات کے بھی مغائر ہیں۔ سیاسی یا نظریاتی اختلاف رائے اگر تعمیری انداز میں ہو تو اس سے فائدہ ہوسکتا ہے ۔ کسی کو سدھارا جاسکتا ہے اور عوامی زندگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے ۔ موجودہ ماحول میں جس طرح سے سیاست دانوں کو حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ واقعات نہ صرف سیاسی اعتبار سے غلط ہیں بلکہ ان کے مہذب سماج پر اثرات بھی منفی ہوتے ہیںاور اس کے نتیجہ میںسارے ملک اور سماج کی بدنامی ہوتی ہے ۔ انتہائی معمولی وجوہات کی بنا پر اس طرح کے حملے کرنا در اصل شخصی مایوسی اور ناکامیوں کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے اور اس ناکامی اور مایوسی کا اظہار دوسرے طریقے سے کرنے کی بجائے سیاست دانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کیا جا رہا ہے لیکن یہ طریقہ درست نہیں کہا جاسکتا ۔
سیاسی قائدین سے اختلاف ایک بنیادی مسئلہ ہے ۔ کوئی بھی سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت ایسی نہیںہوسکتی جس سے اختلاف نہ کیا جاسکے ۔ہر جماعت اور ہر سیاسی لیڈر کے ساتھ اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی جماعت یا کوئی بھی لیڈر عوام کو صدر فیصد مطمئن نہیں کرسکتا ۔ یا سماج کے تمام گوشوں کی خواہشات و توقعات کو پورا کرسکتا ہے ۔ ایسے میں اختلاف رائے کا ہونا ایک یقینی اور فطری امر ہے ۔ تاہم اختلاف رائے کی بنیاد پر سیاست دانوں کی ہتک کرنے کی کوشش کرنا اور انہیں حملوں کا نشانہ بنانا یہ درست نہیں ہوسکتا ۔ سیاستدانوں کے سامنے صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا جاسکتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے ۔ سیاہی پھینک کر کسی کے چہرے کو مسخ کرنا یا کسی پر جوتے برسانا یہ ہندوستانی روایات اور تہذیب کے مغائر ہے اس سے ملک کی بدنامی بھی ہوتی ہے ۔ اور اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے۔