سہراب الدین کیس کے ملزمین بھی بری

یہ زندگی کسی اندھے بھرم کی بارش ہے
کہیں خوشی کی کہیں رنج و غم کی بارش ہے
سہراب الدین کیس کے ملزمین بھی بری
اب سہراب الدین شیخ فرضی انکاونٹر کیس کے ملزمین کو بھی عدالت سے براء ت مل گئی ہے ۔ یہ ایک بار پھر استغاثہ کی ناکامی ہے ۔ اس سے قبل ایک سے زائد موقعوں پر واضح ہوچکا تھا کہ سہراب الدین شیخ کو اس کی اہلیہ کوثر بی اور ساتھی تلسی رام پرجاپتی کے ساتھ ایک فرضی انکاونٹر میںہلاک کردیا گیا ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم نے مبینہ طور پر اس کیس میں لاپرواہی کا بلکہ ملزمین کو بچانے کا کام کیا ہے اور اسی وجہ سے وہ عدالت میں اس کیس میں اپنے دعوی کو ثابت نہیںکرپائی ہے ۔ عدالت میں پیروی اس ڈھنگ سے کی گئی اور چارچ شیٹ اس انداز سے پیش کی گئی کہ عدالت کی نظر میں ان ملزمین کو ثبوت و شواہد کے فقدان کے باعث برات مل جائے ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی اہم نوعیت کے حامل مقدمات میںملزمین کو مسلسل عدالتوںسے براء ت ملتی جا رہی ہے ۔ تقریبا تمام ہی معاملات میں تحقیقاتی ایجنسیاں ‘ نفاذ قانون کی ایجنسیاں اور استغاثہ کی جانب سے ملزمین کے خلاف پیروی ٹھیک ڈھنگ سے نہیںکی جار ہی ہے ۔ یہ ایجنسیاں ایک مفروضہ کی بنیاد پر تحقیقاتی عمل کو آگے بڑھاتی ہیں۔ ان کا مقصد و منشا ملزمین کو سزائیں دلانے کی بجائے انہیں نجات فراہم کرنا ہی ہوتا ہے ۔ کئی معاملات اس کی مثال ہیں جن پر حالیہ عرصہ میں ملزمین کو براء ت مل چکی ہے ۔ استغاثہ تقریبا ہر معاملہ میں ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ایسی پیروی اور عدالتوں میں ثبوتو شواہد پیش کرنے میں استغاثہ کی ناکامی کی وجہ سے ملزمین کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں اور جرائم کی شرح میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ چاہے گجرات فسادات ہوں یا پھر اس کے بعد پیش آنے والے مختلف واقعات اور انکاونٹرس ہوں تقریبا سبھی مقدمات میں اس وقت کی گجرات حکومت اور اس کے ذمہ داران پر شک کی سوئی آئی تھی ۔ مقدمات بھی درج کئے گئے تھے ۔ ماضی کی مثالیں موجود ہیں جب عدالتوں کی جانب سے ایسے معاملات میں حکومتوںکی اور تحقیقاتی ایجنسیوں کی سرزنش بھی کی گئی تھی ۔ مقدمات کو گجرات سے باہر منتقل بھی کیا گیا تھا تاکہ وہاں متاثرین کو مطمئن کیا جاسکے ۔
استغاثہ اور تحقیقاتی ایجنسیاں تاہم ایسا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔وہ ملزمین کو مطمئن کرنے کی بجائے ایسا لگتا ہے کہ سیاسی اشاروں پر کام کر رہی ہیں۔ ایک مخصوص طبقہ کو عدالتی کشاکش اور مقدمات سے نجات دلانے کے مقصد سے ایسا کیا جا رہا ہے اور ایسا کرنے سے متاثرین کو انصاف رسانی ممکن نہیں ہو پا رہی ہے ۔ ملزمین میں عدم اطمینان اور بے چینی کی فضاء پیدا ہو رہی ہے ۔ اپنوں سے محروم ہونے والے متاثرین زخم ہرے اور تازہ ہو رہے ہیں۔ سہراب الدین شیخ انکاونٹر کیس اس کی ایک تازہ ترین مثال ہے ۔ اس میں بھی استغاثہ کی جانب سے جس طرح سے تحقیقات کی جانی چاہئے تھی ۔ جس طرح سے پیروی کی جانی چاہئے تھی ۔ جس طرح سے چارچ شیٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو مطمئن کیا جانا چاہئے تھا ویسا نہیں کیا گیا ۔ عدالتوں میں موثر ثبوت و شواہد پیش کرنے میں استغاثہ پوری طرح ناکام رہا ہے ۔ یہ ان ایجنسیوں کی صریح ناکامی ہے جن کے ذمہ اس طرح کے مقدمات کی پیروی اور تحقیقات رہی تھی ۔ ایک مخصوص نہج پر کام کرتے ہوئے ایسا طرز عمل اختیار کیا گیا جن کے ذریعہ ملزمین کو عدالتوں سے براء ت مل جائے ۔ یہ ایسی ناکامی ہے جن سے متاثرین کو انصاف نہیں مل رہا ہے ۔ ان ایجنسیوں سے جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے ۔
سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں کا مقدمہ ہو یا پھر مکہ مسجد میں ہوئے بم دھماکوں کا مقدمہ ہو ‘ مالیگاوں کے بم دھماکوں کا کیس ہو یا پھر گجرات فسادات کے مقدمات ہوں تقریبا سبھی میں استغاثہ ملزمین کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام ہوتا جا رہا ہے ۔ مسلسل ایسے ملزمین کو راحت ملتی جارہی ہے اور متاثرین کے زخم ہرے ہوتے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسا لگتا ہے کہ مرکز میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ہورہا ہے ۔ کچھ موقعوں پر تو تحقیقاتی عہدیداروں نے خود تحقیقات سے سبکدوشی اختیار کرلی تھی اور الزام عائد کیا تھا کہ ان پر مخصوص انداز میں کام کرنے کیلئے دباو ڈالا جا رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انصاف کی جدوجہد کو جانبداری سے پاک کیا جائے ۔ سیاسی اشاروں پر کام کرنے کی بجائے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے کام کیا جائے تاکہ متاثرین کو یقینی طور پر انصاف دلایا جاسکے ۔