سکھوں کیخلاف لطیفے بہت ہیں لیکن…

سرداروں کے بارے میں کئی حقائق بھی ہیں
حیدرآباد 24 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان میں سکھوں اور پاکستان میں پٹھانوں کے خلاف لطیفے سنائے جاتے ہیں اور ان لطیفوں کے ذریعہ ایک طرح سے پٹھانوں (خانوں) اور سکھوں (سردارجیوں) کا مذاق و مضحکہ اُڑایا جاتا ہے۔ اگر ملک میں سکھوں کی آبادی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی آبادی ملک کی جملہ آبادی کا 1.4 فیصد ہی ہے۔ اس کے باوجود وہ زندگی کے ہر شعبہ میں چھائے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں انٹرنیٹ پر کچھ نوجوانوں کی ایک کہانی پڑھنے کا موقع ملا جس میں ان لوگوں نے اپنی کہانی کا آغاز کچھ اس طرح کیا ’’گزشتہ تعطیلات کے دوران کچھ دوست دہلی آئے انھوں نے شہر اور اس کے اطراف و اکناف کے تاریخی اور تفریحی مقامات کے مشاہدہ کے لئے ایک ٹیکسی کرایہ پر حاصل کی۔ ٹیکسی کا ڈرائیور ایک بوڑھا سردار (سکھ) تھا۔ نوجوان لڑکے تو لڑکے ہوتے ہیں چنانچہ ان دوستوں نے سردار جی (سکھوں) کے خلاف لطیفے سنانے شروع کردیئے۔ ان کا مقصد بوڑھے سردار ڈرائیور کو تنگ کرنا تھا لیکن تمام لڑکے یہ دیکھ کر حیرت میں غرق ہوگئے کہ ان لطیفوں پر ڈرائیور برہم ہونے کی بجائے بڑے اطمینان سے گاڑی چلارہا تھا وہ بڑا مطمئن تھا اس کے چہرہ پر بھی کسی قسم کی برہمی یا غصے کے تاثرات دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ تاریخی اور تفریحی مقامات کے مشاہدہ کے اختتام پر ان نوجوان لڑکوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو اس کا کرایہ ادا کیا، سردار نے ان لڑکوں کو چلر واپس کیا، ساتھ ہی ہر لڑکے کو ایک ایک روپئے کا سکہ تھمادیا اور اس نے یہ سکے انھیں بطور خاص اپنی جانب سے دیئے تھے۔ ہر لڑکے کو ایک ایک سکہ تھماتے ہوئے وہ ان سے مخاطب ہوکر کہنے لگا ’’بیٹو‘‘ صبح سے آپ لوگ سردار جی (سکھوں) کے بارے میں لطیفے سنائے جارہے تھے، میں نے وہ تمام لطیفے سنے، میں آپ لوگوں کو بتادوں بعض لطیفے انتہائی بدمزہ اور اہانت آمیز تھے لیکن میں نے اس کا بُرا اس لئے نہیں مانا کیوں کہ آپ سب نوجوان خون ہو اور ابھی اچھی طرح دنیا نہیں دیکھی لیکن میری ایک درخواست ہے میں آپ سب کو ایک ایک روپیہ دے رہا ہوں اس شہر یا کسی اور شہر میں جس پہلے سردار بھکاری سے آپ کا سامنا ہوجائے یہ ایک روپیہ اس کے حوالے کردینا … یہ کہانی تو ختم ہوگئی لیکن اب ان تمام دوستوں کا کہنا ہے کہ اس سردار ڈرائیور کے دیئے ہوئے ایک ایک روپئے کے سکے ہنوز ان کے پاس ہے اور کہیں بھی ہم نے ایک سکھ یا سردار گداگر کو نہیں دیکھا۔ اس کہانی کے پیچھے دراصل عالمی سطح پر سکھوں کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ سکھ کوئی بھی کام بڑے فخر اور شوق کے ساتھ کرتے ہیں، محنت سے جی نہیں چُراتے۔ ایک سکھ ٹرک چلائے گا، سڑک کے کنارے گیاریج کھولے گا یا پھر دھابہ چلاتا نظر آئے گا۔ فروٹ جوس کی اسٹال کے ذریعہ اپنی روزی روٹی کا انتظام کرے گا یہاں تک کہ کارپنٹری بھی کرے گا لیکن وہ سڑکوں پر بھیک نہیں مانگے گا۔ ہندوستان میں اپنی کم آبادی کے باوجود سکھ اس لئے بھی کامیاب ہیں کیوں کہ وہ ملک میں ادا کئے جانے والے ٹیکس کا 33 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ملک کی 87 فیصد خیراتی تنظیمیں سکھ چلاتے ہیں۔ ہندوستانی فوج میں 45 فیصد فوجی سکھ ہیں۔ 33 فیصد اعلیٰ فوجی عہدہ دار سکھ ہیں۔ ملک میں تقریباً 60 ہزار گردواروں کے ذریعہ ہر روز 6 ملین (60 لاکھ) سے زائد لوگوں کو لنگر کے ذریعہ کھانا فراہم کرتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ مذکورہ تمام کارنامے ملک کی آبادی کا صرف 1.4 فیصد حصہ ہونے کے باوجود انجام دیئے ہیں۔ سکھ کبھی کسی شعبہ میں تحفظات بھی طلب نہیں کرتے ان کی محنت اور خودداری یقینا مثالی ہے۔