حیدرآباد 22 اپریل : حلقہ لوک سبھا سکندرآباد میں موجودہ رکن انجن کمار یادو کو عوام کی مخالفت کا سامنا ہے ۔ وہ دو مرتبہ سے یہاں سے منتخب ہو رہے ہیں۔ جہاں کانگریس امیدوار کو مرکز و ریاست میں مخالف حکومت لہر کی وجہ سے پریشانی ہے وہیں تلگودیشم ۔ بی جے پی امیدوار کو مودی لہر سے فائدہ کی امید ہے ۔ اس دوران مجلس اس حلقہ سے مقابلہ میں آئی ہے جو حالیہ وقتوں میں پہلی مرتبہ ہے ۔ عام آدمی پارٹی سے سابق آئی اے ایس عہدیدار چھایا رتن بھی میدان میں ہیں تاہم اصل مقابلہ سکندرآباد میں کانگریس اور تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد کے مابین ہے ۔ 2004 میں کانگریس امیدوار انجن کمار یادو نے بی جے پی امیدوار کو 68,758 ووٹں سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 2009 میں انجن کمار یادو نے دتا تریہ کو 1,70,167 ووٹوں کے فرق سے ہرایا تھا ۔ تاہم اس بار مجلس کے داخلہ سے حالات بدل گئے ہیں۔ سابق وزیر مکیش گوڑ نے سکندرآباد سے اپنے فرزند کو ٹکٹ دلانے کوشش کی تھی تاہم ناکام رہے ۔ انجن کمار یادو اور مکیش کے اختلافات بھی سکندرآباد حلقہ کے نتیجہ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی تلنگانہ یونٹ کے صدر جی کشن ریڈی نے بھی سکندرآباد حلقہ سے مقابلہ کی کوشش کی تھی لیکن قیادت نے دتاتریہ کو ٹکٹ دیا ہے ۔ ابتداء میں دتاتریہ اور کشن ریڈی میں بھی اختلافات تھے جنہیں بعد میں حل کرلیا گیا ۔ سکندرآباد لوک سبھا حلقہ میں مسلمان رائے دہندے 4 لاکھ ہیں جنہوں نے گذشتہ مرتبہ کانگریس کے حق میں ووٹ دیا تھا ۔ در اصل انہوں نے بی جے پی کے خلاف اور کانگریس کے فلاحی کاموں کو ووٹ دیا تھا ۔ اس مرتبہ مجلس نے این موہن راؤ کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جس سے مسلمان کانگریس کی بجائے انہیں ووٹ دے سکتے ہیں۔ اور اس کا فائدہ دتاتریہ اور بی جے پی کو مل سکتا ہے ۔ سکندرآباد کے ووٹرس انجن کمار سے ناراض بھی ہیں کہ انہوں نے کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا ہے ۔ ایسے میں مجلس اور رائے دہندوں کی ناراضگی کی وجہ سے انجن کمار یادو کے نتائج متاثر ہوسکتے ہیں اور دتاتریہ کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔( بشکریہ : دکن کرانیکل )