سڑکوں پر غیر قانونی مذہبی ڈھانچوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری

حیدرآباد ۔ یکم ۔ اپریل : ( نمائندہ خصوصی) : حکومت ایک طرف ببانگ دہل اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ دونوں شہروں میں ٹریفک کی بلارکاوٹ آمد و رفت کو یقینی بنانے کے لیے سڑکوں پر موجود مساجد ، منادر اور دیگر مذہبی ڈھانچوں کو ہٹاکر دوسرے مقام پر منتقل کردیا جائے گا ۔ مگر دوسری طرف شرپسند عناصر سڑکوں اور عام گذر گاہوں پر ہی مذہبی ڈھانچہ تعمیر کرتے ہوئے ٹریفک کے لیے شدید مسائل پیدا کررہے ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی صرف چار دن پہلے ہی وزیر داخلہ این نرسمہا ریڈی نے اسمبلی میں بیان دیا کہ عام گذر گاہوں اور سڑکوں پر سے مساجد ، منادر اور دیگر مذہبی ڈھانچوں کو ہٹا کر دوسری جگہ منتقل کردیا جائے گا تاکہ بلا روک ٹوک ٹریفک بہاؤ کو یقینی بنایا جاسکے مگر مہدی پٹنم سے آرام گھر ہوتے ہوئے شمس آباد جانے والے ایکسپریس وے کے نیچے پلر نمبر 248 کے قریب وجئے آنند گارڈن کے روبرو آج ایک مذہبی ڈھانچہ تعمیر کردیا گیا ہے ۔

روزنامہ سیاست نے یکم جولائی 2012 کو ہی اس شر پسندانہ حرکت کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ تصویر کے ساتھ شائع کی تھی ۔ جو آج کی اس رپورٹ میں بھی شامل ہے ۔ اس وقت کی تصویر اور آج کی تصویر دونوں کو دیکھ کر آپ اس بات کا اعتراف کریں گے کہ روزنامہ سیاست نے اپنی رپورٹ میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا ۔ اگر اس وقت حکومت ہماری اس رپورٹ پر ایکشن لیتی تو عام گذرگاہ پر رکھے گئے کل کے چند پتھر آج مذہبی ڈھانچے کی شکل اختیار نہ کرتے ۔ روزنامہ سیاست نے قبل ازیں رپورٹ میں بتایا تھا کہ مذکورہ پلر کے نیچے ایک حصے میں ایک فٹ کے پتھر کی پوجا کی جارہی ہے ۔ جہاں چند بڑے بڑے پتھروں کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا گیا تھا ۔ اسی وقت ہم نے بتایا تھا کہ انہیں نہیں روکا گیا تو مستقبل میں کیا ہوگا ۔ یہ آپ بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ اور آج وہ حقیقت سامنے آگئی ۔ سوال یہ نہیں یہ مذہبی ڈھانچہ کسی مخصوص مذاہب کے ماننے والوں سے تعلق رکھتا ہے ۔ یہاں سوال انسانیت اور انسانی پہلو کا ہے ۔ یہ مذہبی کم سماجی مسئلہ زیادہ ہے ۔

ایک ایسے وقت جب گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ ٹریفک مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور حکومت اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے سڑکوں اور گذرگاہوں سے مذہبی ڈھانچوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کررہی اور ایسے ڈھانچوں کے خلاف عدالتی احکام بھی جاری ہوچکے ہیں ۔ مگر اس کے باوجود اس طرح دیدہ دلیری کے ساتھ سڑکوں پر کھلے عام قانون اور اصول کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور محکمہ پولیس اور حکومت عملی اقدامات کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جب کہ شرپسندوں کی اسی حرکت سے سیکولر پسند افراد میں بے چینی پائی جارہی ہے ۔ لہذا حکومت کو چاہئے کہ وہ فوراً حرکت میں آتے ہوئے عملی اقدامات کرے اور یہاں پیدا ہونے والے سنگین ٹریفک مسائل سے عام آدم