سچا ہمدرد

ایک گاؤں میں ایک مشہور ڈاکٹررہتے تھے جن کا نام ڈاکٹر احمد تھا ۔ ڈاکٹر احمد بہت رحمدل اور ہمدرد تھے ، ہمیشہ غریبوں کا خیال رکھتے تھے۔ ایک دن وہ کسی مریض کو چیک کررہے تھے کہ ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا ۔ ڈاکٹر انکل ! مجھے بچاؤ ۔
ڈاکٹر احمد نے کہا۔ بیٹا۱ کیا ہوا تم اتنے پریشان کیوں ہو ؟ بچہ کہنے لگا : انکل ! میرا نام حلیم ہے ، میرے امی ، ابو فوت ہوگئے ہیں ، ہمارے رشتے دار ہیں ، وہ رشتے میں میرے انکل ہیں ، وہ پورا پورا دن مجھ سے کام کرواتے ہیں ، مجھے بہت مارتے ہیں ، مجھے پڑھنے نہیں دیتے ۔  ڈاکٹر احمد نے کہا : بیٹا حلیم ! تم فکر نہ کرو ، کہاں ہیں تمہارے انکل … ؟  حلیم کہنے لگا کہ وہ اسپتال کے باہر کھڑے ہیں اور مجھے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں لیکن انکل ! میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گا ۔ ڈاکٹر احمد نے کہا ، چلو ان کے پاس چلتے ہیں ۔ وہ جب اس کے پاس پہنچے تو ڈاکٹر احمد نے کہا ۔ حلیم تمہارا کیا لگتا ہے ؟ وہ کہنے لگا ، میرا بھیتجہ ہے یہ ، میں اسے لینے آیا ہوں۔  ڈاکٹر احمد نے اس سے کہا یہ ہرگز تمہارے ساتھ نہیں جائے گا ، تم اس پر ظلم کرتے ہو ، اسے پڑھنے نہیں دیتے ہو ، پورا پورا دن اس بیچارے سے کام کرواتے ہو ، اگر حلیم کی جگہ تمہارا بیٹا ہوتا تو کیا تم اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے … ؟  ڈاکٹر کی باتوں سے اس پر اتنا اثر ہوا کہ وہ ڈاکٹر احمد سے معافی مانگنے لگا ۔ ڈاکٹر احمد نے کہا ۔ انکل میں نے آپ کو معاف کیا ، خدا بھی آپ کو معاف کرے۔ حلیم ، ڈاکٹر احمد کے پاس رہنے لگا ۔ ڈاکٹر احمد اسے بہت پیار کرتے تھے ۔ وہ پڑھنے لگا اور ہنسی خوشی رہنے لگا کیونکہ اسے ڈاکٹر احمد کی شکل میں سچا ہمدردی اور دوست جو مل گیا تھا ۔