نئی دہلی ۔ 29 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ کے انتہائی سینئر جج جسٹس کے چلمیشور نے چیف جسٹس آف انڈیا کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے عدالت کا اجلاس کاملہ طلب کرکے اس میں انتظامیہ کی عدلیہ کے کاموں میں غیرضروری دخل اندازی پر غور کا مطالبہ کیا۔ جسٹس چلمیشور نے 21 مارچ کو اپنے مکتوب میں خبردار کیا کہ عدلیہ اور مملکت کے درمیان ہم آہنگی ایسا معلوم ہوتا ہیکہ جمہوریت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کررہی ہے۔ انہوں نے ایک اقدام کرتے ہوئے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، اپنے مکتوب کی نقول دیگر 22 سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی روانہ کرتے ہوئے کرناٹک ہائیکورٹ کی جانب سے ضلع اور سیشن جج کرشنا بھٹ کے خلاف مرکزی وزارت قانون و انصاف کی ایماء پر تحقیقات کروانے پر سخت اعتراض کیا حالانکہ ان کا نام دو مرتبہ کالجیم کی جانب سے ترقی کیلئے پیش کیا گیا تھا۔ جسٹس چلمیشور نے اپنے چھ صفحات پر مشتمل مکتوب میں تحریر کیا کہ بنگلور سے کسی شخص کو قبل ازیں ماتحت عہدیداروں کے ساتھ دوڑ میں شکست ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس آف کرناٹک ہائیکورٹ انتظامیہ کی اس کوشش کے پس پردہ ہیں۔ انہوں نے عدلیہ کی آزادی کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے ججس پر عاملہ کی بڑھتی ہوئی غیرضروری دخل اندازی کی وجہ سے آزادی سے محروم کیا جارہا ہے۔ عاملہ ہمیشہ بے چین رہتا ہے اور کسی بھی حکم عدولی کو عدلیہ کی جانب سے برداشت نہیں کرتا۔ سکریٹریٹ کے صدور شعبہ اور ہائیکورٹ کے چیف جسٹسیس نامور اور نمایاں ریاستی ججس کو ان کی آزادی اظہار سے محروم کردیتے ہیں۔ جسٹس چلمیشور نے جو 12 جنوری کو پریس کانفرنس میں دیگر 3 سینئر ججوں کے ساتھ چیف جسٹس آف انڈیا کی جانب سے مقدمات مختص کرنے کے طریقہ کار پر ناراضگی ظاہر کرچکے ہیں، کہاکہ حکومت کالجیم کی ناموں کی سفارش برائے تقرر نے غیرضروری تاخیر کرتی ہے۔ بعض اوقات حکومت سفارشات کو منظور کرلیتی ہے لیکن چند استثنائی واقعات پیش کئے جاتے ہیں جو معیار سے ہٹ کر اور اپنی پسند کے ججوں کے تقرر کے بارے میں ہوتے ہیں۔