قانون کی طالبات کے ساتھ کام کیلئے آج بھی تیار ہوں: جسٹس گنگولی
کولکتہ 8 جنوری ( سیاست ڈاٹ کام ) جسٹس اے کے گنگولی نے ان کے خلاف جنسی حملہ کے الزامات کی تین ججس پر مشتمل پینل کے ذریعہ تحقیقات پر سپریم کورٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھا گیا تھا ۔ 66 سال سابق سپریم کورٹ جج نے یہ دعوی کیا کہ انھوں نے برہمی کے عالم میں استعفی دیا ہے اور وہ قانون کی طالبہ کے خلاف ہتک عزت مقدمہ دائر کرنے کے مقابلہ جیل جانے کو ترجیح دیں گے ۔ اس خاتون نے جسٹس گنگولی پر طالب علمی کے دور میں جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کئے ہیں ۔ جسٹس گنگولی سے جب ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے پوچھا کہ کیا وہ طالبہ کے خلاف ہتک عزت مقدمہ دائر کریں گے ؟ انھوں نے جواب دیا کہ کسی کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے جو ان کا طالب علم رہ چکی ہو ۔
اس کے برعکس وہ جیل جانا پسند کریں گے ۔ جسٹس گنگولی پر سپریم کورٹ ججس کے سہ رکنی پینل کی جانب سے ماخوذ کئے جانے کے بعد استعفی کیلئے شدید دباو تھا ۔ انھوں نے کسی غلطی کی تردید کی اور الزام عائد کیا کہ سپریم کورٹ نے انھیں موقف کی وضاحت کا موقع نہیں دیا ۔ جسٹس گنگولی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ان کے ساتھ انتہائی برا اور ناروا سلوک روا رکھا ۔ پینل نے انھیں موقف کے وضاحت کا بھی موقع نہیں دیا ۔ جسٹس گنگولی نے سی این این ۔ آئی بی این کو بتایاکہ ریٹائرڈ جج پر سپریم کورٹ کے دائرہ کار کااطلاق نہیں ہوتا ۔ انھوں نے پینل کے تقرر پر بھی سوالات اٹھائے ۔
انھوں نے کہا کہ اس طالبہ نے سپریم کورٹ سے کبھی شکایت نہیں کی‘ پھر یہ پینل آخر کیونکر تشکیل دیا گیا ؟ پینل کی جانب سے ان کے ناپسندیدہ طرز عمل کی نشاندہی پر جسٹس گنگولی نے برہمی کے عالم میں جواب دیا کہ یہ ناپسندیدہ طرز عمل آخر کیوں ؟ میں اس طالبہ کو اپنے ساتھ رہنے کیلئے مجبور نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے شراب پینے کیلئے دباو ڈال سکتا ہوں۔ اگر کوئی ایسا نہ کرنا چاہے تو کیا میں مجبور کرسکتا ہوں ؟ اگر طالبہ کو یہ پسند نہیں تھا تو وہ ڈنر سے پہلے واپس جاسکتی تھی ۔ جسٹس گنگولی نے یہ بھی دعوی کیا کہ طالبہ کی تحریری شکایت کی نقل انھیں نہیں دی گئی ۔ جب ان سے استعفی دینے کی وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھیں نے کہا کہ ایسے حالات میں کام کرنا مشگکل ہوگیا تھا ۔ مستقبل کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ وہ ان کے انسانی حقوق کی بحالی کیلئے جدوجہد کریں گے اور عام آدمی کے حقوق کیلئے جدوجہد پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ اس کے علاوہ وہ آج بھی قانونی طالبات کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار ہیں ۔