سونیا گاندھی یو پی اے دور میں ماورائے دستور اتھارٹی

نئی دہلی ۔ 27 مئی (سیاست ڈاٹ کام) سونیا گاندھی اور راہول گاندھی پر سخت تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ سونیا گاندھی یو پی اے دورحکومت میں ’’غیردستوری‘‘ اتھاریٹی تھیں۔ حقیقی اقتدار ان ہی کے ہاتھ میں تھا۔ وزیراعظم کا دفتر یو پی اے دوراقتدار میں ان کا ماتحت تھا اور وہاں انہیں دستوری اختیارات حاصل تھے۔ صدر کانگریس کے این ڈی اے پر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اپنا تکبر ظاہر کرنے کے بعد اب وہ ایک شخص کی حکومت قرار دیتے ہوئے این ڈی اے پر الزام عائد کررہی ہے۔ درحقیقت وہ خود اپنا حوالہ دے رہی ہے جنہیں ماورائے دستور اختیارات حاصل تھے۔ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی پر ان کی سخت تنقید ایک انٹرویو کے دوران منظرعام پر آئی جس میں انہوں نے وزیراعظم کے دفتر میں اختیارات مرکوز ہونے کے بارے میں سوالوں کے جواب دیئے۔ ان سے اقلیتوں، این جی اوز، حصول اراضی، سی ایس ٹی قوانین، معاشی اصلاحات اور دیگر مختلف موضوعات پر سوالات کئے گئے۔

انہوں نے پرزور انداز میں کہا کہ دستوری اسکیم کا ایک حصہ ہے اور اس سے باہر نہیں ہے۔ راہول گاندھی کی ’’سوٹ بوٹ کی سرکار‘‘ تبصرہ پر وزیراعظم نے کہا کہ کانگریس لوک سبھا انتخابات میں اپنی شکست کو ہنوز ہضم نہیں کر سکی ہے۔ عوام نے اسے اس کے گناہوں، خطاؤں اور کوتاہیوں کی سزاء دی ہے۔ جب کانگریس اپوزیشن میں تھی، تب بھی اس نے ترقی کی مخالفت کی تھی۔ وزیراعظم کے دفتر پر تنقید کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وزراء کو پہلے سے زیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں اور وہ اب اپنی وزارتوں سے متعلق فیصلے خود کرسکتے ہیں۔ حصول اراضی بل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کارپوریٹس کی بلکہ غریبوں اور کاشتکاروں کی تائید کررہی ہے۔ علاوہ ازیں اس قانون پر عمل آوری کے سلسلہ میں تمام اختیارات ریاستوں کو حاصل ہوں گے۔ اس سوال پر کہ کیا ان کی حکومت تجاویز قبول کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ غریبوں اور کسانوں کی جانب سے اگر کوئی تجاویز پیش کی جائیں کیونکہ یہ قانون ان کے مفاد میں مدون کیا گیا ہے تو ان کی تجاویز یقینا قبول کی جائیں گی۔

زرعی بحران اور کاشتکاروں کی خودکشیوں کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ برسوں سے فکرمندی کا باعث ہے۔ اس کو سیاسی رنگ دینا مسئلہ کو حل کرنے میں رکاوٹ بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کاشتکاروں کو تیقن دینا چاہتے ہیں کہ اگر حکومت کو ضرورت ہوگی تو وہ ان سب کی مدد حاصل کرے گی۔ اقلیتوں کے بارے میں مودی نے کہا کہ کوئی بھی فوجداری قانون کسی فرد یا صرف ادارہ کے خلاف نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہو تو اس کی مذمت کی جانی چاہئے اور قانون کے مطابق سخت ترین سزاء دی جانی چاہئے۔ اقلیتوں کے خلاف تعصب کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ این جی اوز کے خلاف حکومت کی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے جس پر وسیع پیمانے پر تنقید کی جارہی ہے، مودی نے کہا کہ قانون کا نفاذ سابق حکومت نے بھی کیا تھا۔ ہم نے خلاف قانون کوئی کارروائی نہیں کی۔ بین الاقوامی چوٹی کانفرنسوں اور تنظیموں جیسے ڈبلیو ٹی او کے فیصلے ہر ایک پر واجب تعمیل ہیں۔ اسی طرح ہم بھی ایسی چوٹی کانفرنسوں کے تمام فیصلوں کی تعمیل کریں گے اور ان کو مجروح نہیں کریں گے۔ وزیراعظم کی میعاد کا آج سے دوسرا سال شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے سوچھ بھارت، اسکولوں میں ٹائلیٹس، جن دھن، غریبوں کیلئے انشورنس اور پنشن اسکیموں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تمام غریبوں اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کے اقدامات ہیں۔ اس سوال پر کہ اقتدار کی گلیاریوں کی صفائی کی مہم اہم ہے تاکہ حکومت کا نظام بہتر ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اصلاحی طریقہ کار اور صفائی کی مہم چند دن اور جاری رہے گی تاکہ اس کے طویل مدتی فوائد ہر ایک کو پہنچ سکے۔

انہوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بعض پارٹیاں حصول اراضی قانون میں ترمیمات پر اچانک مخالفت کیلئے کیوں آمادہ ہوگئی ہے۔ دریں اثناء سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے مودی کی حکومت پر سخت ترین تنقید کرنے کے چند گھنٹوں بعد وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ ان دونوں قائدین نے معیشت اور خارجہ پالیسی پر باہم تبادلہ خیال کیا۔ دریں اثناء جرمنی نے آج ہندوستان کے ساتھ دفاعی ٹیکنالوجی، آلات اور پیداوار کے شعبوں میں تعاون سے گہری دلچسپی ظاہر کی۔ جرمنی کی وزیردفاع ارسلا وان ڈیر لین نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران انہیں اس کے بارے میں بتایا۔ نریندر مودی نے جرمنی کی کمپنیوں کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ اپنی حکمرانی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کی حکمرانی اسکینڈلوں سے پاک حکومت ہے چنانچہ ہندوستانی عوام کیلئے ان کی حکمرانی کی شکل میں ’’اچھے دن‘‘ آ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایک بھی اسکینڈل ہو تو آپ مجھ سے سوال کرسکتے ہیں کہ کیا یہی ’’اچھے دن‘‘ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ گذشتہ سال اپنی انتخابی مہم کے دوران اچھے دن لانے کا تیقن دیا تھا اور اب سرگوشیاں جاری ہیکہ کیا یہی اچھے دن ہیں جن کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ وہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کے دورحکومت میں کیا کوئی اسکینڈل ہوا ہے۔