نئی دہلی۔ یکم جولائی (سیاست ڈاٹ کام) تازہ الزامات عائد کرتے ہوئے للت مودی نے آج صدر کانگریس سونیا گاندھی اور بی جے پی قائد ورون گاندھی کو بڑھتے ہوئے تنازعہ میں ملوث کرنے کی کوشش کی۔ اس تنازعہ میں سابق آئی پی ایل سربراہ پہلے ہی سے ملوث ہیں۔ مودی نے الزام عائد کیا کہ ورون گاندھی ان سے ان کی قیام گاہ واقع لندن میں ملاقات کرکے معاملات کے سونیا گاندھی کے ساتھ طئے کرنے کا پیشکش دے چکے ہیں۔ یہ الزام بی جے پی رکن پارلیمنٹ کی جانب سے بے بنیاد اور بکواس قرار دیا گیا ہے۔ للت مودی نے اپنے ٹوئٹر پر سلسلہ وار تحریروں میں الزام عائد کیا کہ وہ اپنے مشترکہ دوست سے سن چکے ہیں کہ وہ اپنی آنٹی سے 6 کروڑ امریکی ڈالرس میں سودا طئے کراسکتے ہیں کیونکہ ان کی آنٹی یہیں رقم چاہتی ہیں۔
للت مودی نے کہا کہ انہوں نے طمانیت طلب کی تھی، اس پر ان کے دوست نے کہا کہ کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ انکار نہیں کیا جائے گا۔ اس الزام کی شدت سے تردید کرتے ہوئے ورون گاندھی نے کہا کہ یہ قطعی بے بنیاد، میرے وقار سے گرا ہوا اقدام ہے کہ میں اس بکواس پر اپنا ردعمل ظاہر کروں۔ بی جے پی بھی ورون گاندھی کے دفاع میں آگے آگئی۔ اس نے کہا کہ ورون گاندھی، سونیا گاندھی کی پارٹی سے مختلف پارٹی میں ہیں۔ بی جے پی کے ترجمان شاہنواز حسین نے کہا کہ ورون گاندھی اور سونیا گاندھی مختلف پارٹیوں میں ہیں اور دُنیا دونوں خاندانوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں اچھی طرح جانتی ہے۔ اپنی ٹوئٹر تحریروں کے ایک اور مجموعہ میں للت مودی نے کہا کہ ورون گاندھی کو دُنیا کو بتا دینا چاہئے کہ انہوں نے اپنی آنٹی کی خواہش کے بارے میں ان سے کیا کہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان کا گواہ ان کا ایک اچھا دوست اور دُنیا کا نامور ماہر فلکیات ہے۔ للت مودی نے کہا کہ ورون گاندھی کو واضح کرنا چاہئے کہ انہوں نے لندن میں ان کی قیام گاہ پر ان سے ملاقات کی تھی یا نہیں جبکہ وہ رِٹز ہوٹل لندن میں چند سال قبل مقیم تھے۔ آنٹی سے مراد سونیا گاندھی ہیں۔ کانگریس نے آج مطالبہ کیا کہ حکومت للت مودی تنازعہ کے سلسلے میں اپنا موقف واضح کرے جبکہ بعض اخباری خبروں کے بموجب کانگریس نے وزیر خارجہ سشما سوراج کی برطرفی کے عوض حکومت کے جی ایس ٹی مسودۂ قانون کی تائید کا پیشکش کیا تھا۔ کانگریس نے اس الزام کو یکسر مسترد کردیا۔ کانگریس کے ترجمان سرجے والا نے مطالبہ کیا کہ سشما سوراج کے استعفیٰ کے بارے میں حکومت کے ساتھ کوئی مراسلت نہیں کی گئی۔ انہوں نے وزیراعظم سے اس بارے میں وضاحت طلب کی۔