سوشیل میڈیا پر کنٹرول کی تجویز

کیسا دستورِ زباں بندی ہے
نہ کروں بات تو دم گھٹتا ہے
سوشیل میڈیا پر کنٹرول کی تجویز
انفارمیشن ٹکنالوجی کی ترقی اور فروغ کے نتیجہ میں سوشیل میڈیا کو دنیا بھر میں زبردست اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔ سوشیل میڈیا آج انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے ۔ سوشیل میڈیا کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے سے نہ صرف رابطے میں ہیں بلکہ انہیں دنیا بھر کے حالات سے ایک دوسرے کو پلک جھپکتے میں واقف کروانے کا بھی موقع دستیاب ہوگیا ہے ۔ سوشیل میڈیا عوام کو اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا بھی بھرپور موقع فراہم کرتا ہے ۔ جہاں سوشیل میڈیا سے عوام کو مثبت پہلو دیکھنے کو ملے ہیں وہیں اس میڈیا کے منفی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں اور یہ منفی اثرات عوام تک محدود نہیں رہے بلکہ اس کے سماج پر بھی اثرات مرتب ہونے لگے ہیں۔ منفی سوچ و فکر رکھنے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جانے والے عناصر سوشیل میڈیا کا غلط استعمال کرنے لگے ہیں۔ اس کی مثال گذشتہ دنوں اتر پردیش کے مظفر نگر میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات سے ملتی ہے جہاں کئی افراد اس نفرت انگیز مہم کا شکار ہوگئے جو محض سوشیل میڈیا کے ذریعہ شروع کی گئی تھی ۔ فسادات کے متاثرین ابھی تک بے یار و مددگار ریلیف کیمپوںمیں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ریلیف کیمپوںمیں بھی حالات ان کیلئے انتہائی نامساعد ہیں اور یہاں بھی زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے کئی افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مختلف گوشوں سے سوشیل میڈیا کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور یہ تجویز پیش کی جاتی رہی ہے کہ سوشیل میڈیا پر بھی حکومت کا کنٹرول اور قابو ہونا چاہئے ۔ بعض گوشے حالانکہ اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن جس انداز سے سوشیل میڈیا کا غلط استعمال بڑھتا جارہا ہے اس کے نتیجہ میں اس ضرورت کو سبھی محسوس کرتے ہیں کہ سوشیل میڈیا پر اگر حکومتوں کا راست اور مکمل کنٹرول نہ بھی ہو تو اس پر کچھ حد تک پابندیاں اور تحدیدات ضرور ہونی چاہئیں تاکہ اس میڈیا کے غلط استعمال سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں ان پر قابو پایا جاسکے ۔ اب مرکزی وزیر داخلہ مسٹر سشیل کمار شنڈے نے بھی کہا ہے کہ حکومت سوشیل میڈیا پر نظر رکھنے کی تجویز پر غور کر رہی ہے ۔ مسٹر شنڈے نے بھی مظفر نگر فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ فساد ایک قدیم تصویر کے غلط انداز میں پیش کئے جانے اور سوشیل میڈیا پر اس کی گشت کے نتیجہ میں ہی مظفر نگر میں فساد پھوٹ پڑا تھا ۔ صرف مظفر نگر کے فسادات کی ہی نہیں بلکہ کئی اور بھی واقعات ایسے ہیں جو صرف سوشیل میڈیا کے غلط انداز میں استعمال کے نتیجہ میں پیدا ہوئے تھے ۔

سوشیل میڈیا پر جو سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں یقینی طور پر سماج پر ان کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بعض گوشے سوشیل میڈیا کو تحقیقاتی صحافت سے منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ اس کوشش کے اثرات سے یا تو واقف نہیں ہیں یا پھرا ن اثرات سے عوام کی توجہ مبذول کروانے کیلئے یہ عذر یا بہانہ پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ خاص طور پر بعض مذہبی جنونی عناصر اس میڈیا کا جو استعمال کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں مختلف برادریوں کے مابین نفرت کی دیوار کھڑی کی جا رہی ہے اور فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا دی جا رہی ہے ۔کئی گوشے ایسے ہیں جو ان سرگرمیوں کو کسی نہ کسی آڑ میں جاری رکھے ہوئے ہیں اورا ن پر قابو پانا ضروری ہے ۔ سوشیل میڈیا پر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اورا پنے انداز میں اس پر تبصرے کرتے ہوئے دوسروں کے جذبات کو بھڑکانے کا جو رجحان ہے وہ سماج کیلئے سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔ اس میڈیا پر کسی طرح کا کوئی قابو نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کوئی جوابدہی کا احساس ہے ایسے میں اس کا ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے استعمال خطرناک حدوں تک بڑھ گیا ہے ۔ کوئی بھی ترقی ہو یا کامیابی ہو اس کو مثبت اورتعمیری انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے اس کے فوائد سے سماج کو بہتر بنانے میں مدد ملنی چاہئے ۔ سوشیل میڈیا نے بھی ابتداء میں یہی رنگ اختیار کیاتھا لیکن اس کی مقبولیت اورعام آدمی تک اس کی رسائی کو دیکھتے ہوئے مفادات حاصلہ نے اس کا غلط استعمال شروع کردیا تھااور انہیں اس لئے بھی سہولت محسوس ہوئی تھی کہ اس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے اور اس میں کہیں بھی جوابدہی کا کوئی عنصر نہیں ہے ۔ ایسے میں اس کا جو بیجا اور منفی انداز میں استعمال ہوا ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے اور اس کے اثرات سے کوئی بھی سماج محفوظ نہیں رہا ہے ۔

سوشیل میڈیا پر مختلف گوشوں سے جو مواد گشت کروایا جاتا ہے وہ بھی ایسا ہوتا ہے جس کی کوئی جانچ پڑتال نہیں ہوتی ۔ محض سنی سنائی باتوں پر بھی سوشیل میڈیا میں ایک طرح سے ہنگامہ کھڑا کردیا جاتا ہے اور اس کے اثرات سے سماج کو متاثر ہونا پڑتا ہے ۔ اب مرکزی حکومت سوشیل میڈیا پر کچھ تحدیدات عائد کرنے یا اس پر قابو کرنے کی تجویز رکھتی ہے اور یہ تجویز ایسی ہے جس پر مکمل غور و خوض کے بعد بہتر اور جامع انداز میں عمل آوری کی جانی چاہئے ۔ کسی بھی ترقی کو بے لگام انداز میں ناپاک عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بننے کا موقع فراہم کرنا درست نہیں کہا جاسکتا اور سوشیل میڈیا کے معاملہ میں اب تک ایسا ہوتا رہا ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ سوشیل میڈیا کے تعلق سے ایک باضابطہ فارمولا بنائے اور اس پر پیش کئے جانے والے مواد اور اس کی سرگرمیوں کو حکومت اپنی نظر میں رکھتے ہوئے اس پر بالواسطہ ہی صحیح اپنا کنٹرول رکھے تاکہ سوشیل میڈیا کا بیجا استعمال کرتے ہوئے کسی کو بھی سماج میں منافرت پھیلانے اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کا موقع دستیاب نہ ہونے پائے ۔ ترقی کے ثمرات اپنی جگہ لیکن ان سے کسی کو اپنے منصوبوں کی تکمیل کا موقع فراہم نہیں کیا جانا چاہئے ۔ حکومت نے اب جب اس کی ضرورت محسوس کی ہے تو یہ ایک اچھی تجویز ہے جس کو جلد از جلد عملی شکل دئے جانے کی ضرورت ہے ۔

افراط زر کی شرح میں کمی
مسلسل اضافہ کے بعد افراط زر کی شرح میں اب قدرے کمی آنے لگی ہے اور ترکاریوں اور بعض پھلوں کی قیمتوں میں بھی اعتدال پیدا ہوا ہے ۔ گذشتہ دنوں جو ترکاریاں اور میوے جات انتہائی قیمتوں تک پہونچ گئے تھے اب بازاروں میں ان کی بہتات کی وجہ سے قیمتیں کم ہوئی ہیں اور اب عوام قدرے راحت محسوس کرنے لگے ہیں۔ حکومت نے بھی افراط زر کی شرح میں کمی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور اسے امید ہے کہ آئندہ مہینوں تک یہ شرح مزید کم ہوگی اور قیمتوں میں مزید اعتدال پیدا ہوگا ۔ گذشتہ تقریبا دوسال کا عرصہ افراط زر کی شرح نے عام ہندوستانیوں کی زندگیوں کو مسائل سے بھر دیا تھا اور بے تحاشہ مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کا جینا دوبھر ہوگیا تھا ۔ گھریلو خواتین کا بجٹ درہم برہم ہوکر رہ گیا تھا اور انہیں مشکلات کا سامنا تھا ۔ اب بھی حالانکہ صرف چند ترکاریاں اور میوے جات کی قیمتوںمیں معمولی کمی کے ساتھ اعتدال کی کیفیت پیدا ہوئی ہے لیکن ہنوز کئی اشیائے ماتحاج ایسی ہیں جن کی قیمتیں ہنوز آسمان کو چھو رہی ہیں اور اس تعلق سے بھی حکومت کو حرکت میں آتے ہوئے ایسے کچھ اقدامات کرنے چاہئیں جن کی وجہ سے مہنگائی کو قابو میں کرنے میں مددمل سکے اور قیمتوں میں اعتدال سے عام آدمی کو راحت نصیب ہو۔ حالانکہ ترکاریاں اورمیوے وغیرہ قدرے سستے ہوئے ہیں لیکن دالیںاور مصالحہ جات کی قیمتوں میں گذشتہ دنوں اضافہ کا رجحان ہی برقرار رہا ہے ۔ یہ ایسا محاذ ہے جس پر حکومت کو توجہ کرتے ہوئے یہاں قیمتوں میں اعتدال پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اس کے علاوہ تیل اور پٹرولیم اشیا کی قیمتیں بھی حکومت کی اولین توجہ کی طالب ہیں۔ ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں جو مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر دوسرے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھتی ہی جائیں گی اور اس کے اثرات سے عام آدمی خود کو محفوظ نہیں رکھ پائے گا ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کوئی ایسا میکانزم تیار کرے جس کے نتیجہ میں سب سے پہلے تو پٹرولیم اشیا کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے پائے اور اس کے نتیجہ میں دوسری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کو روکتے ہوئے عوام کو مہنگائی کی مار سے بچایا جاسکے۔