سوشیل میڈیا پر بلا تحقیق احادیث شریفہ نشر کرنا

محمد قاشم صدیقی تسخیر
آج کل یہ بات عام ہے کہ لوگ کسی دوسرے کی فیس بک سے احادیث شریفہ لے کر اپنی وال پر شیئر کرتے ہیں۔ کئی لوگوں تک وہ پیغام پہنچ جاتا ہے اور دوسرے بھی اس کو آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور ان کو حدیث شریف کی استناد سے متعلق کوئی علم نہیں ہوتا۔ بسا اوقات ان کو یہ تک پتہ نہیں رہتا کہ وہ حدیث درجہ صحت میں ہے یا پھر وہ موضوع ہے۔
واضح رہے کہ حدیث شریف کو عام کرنا فضیلت و برکت اور اجر و ثواب کا موجب ہے کیوں کہ حدیث شریف شریعت اسلامی کا دوسرا اہم ترین ماخذ ہے۔ ایک اہم اصول ہے جس سے احکام شریعت مستنبط ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر قرآن مجید کا صحیح فہم مشکل و دشوار ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : میں تم میں دو امور چھوڑے جارہا ہوں، تم ان کو تھامے رہو تو ہرگز نہیں بھٹکوگے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ۔( موطا امام مالک)
ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص کو ترو تازہ رکھے جس نے ہم سے کچھ سنا اور اسکو پہنچایا جیسا کہ اس نے سنا ہے۔ بسا اوقات وہ شخص جس کو حدیث پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھنے والا ہوتا ہے۔ اس حدیث شریف میں اس شخص کے لئے خصوصی بشارت اور دعاء ہے جو حدیث پاک کو اس کے شرائط و تحمل و اداء سے سن کر دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ ایسا شخص دین و دنیا میں سرخرو، شادماں اور تروتازہ رہیگا۔ اس قسم کی دعاء حدیث شریف کی نشر و اشاعت ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔
امام طبرانی نے معجم اوسط میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اے پروردگار ! میرے خلفاء پر رحم فرما۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ کے خلفاء کون ہیں؟۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : وہ لوگ جو میری احادیث روایت کرتے ہیں اور لوگوں کو سکھاتے ہیں۔

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں حدیث شریف سے افضل کوئی علم نہیں جانتا اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا خواہشمند ہو۔ بلا شبہ لوگ اس علم کے محتاج ہیں حتی کہ کھانے پینے میں ان کو ضرورت ہوتی ہے اور اس علم کا حاصل کرنا نفل نماز و روزہ سے افضل ہے کیوں کہ یہ فرض کفایہ ہے۔
جدید ذرائع ابلاغ نے ساری دنیا کو سمیٹ دیا ہے۔ لمحوں میں انسان دنیا کے طول و عرض میں بسنے والے ہزارہا انسانوں کو بیک وقت اپنی بات، پیغام پہنچانے پر قادر ہوگیا ہے، اور بہت سے مسلمان ان ذرائع ابلاغ کو دین اسلام کی نشر و اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے لئے استعمال کررہے ہیں اور بحیثیت مسلمان ہر ایک کی خواہش و رغبت ہوتی ہے کہ اسلام کا پیغام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان دوسرے افراد تک پہنچ جائے۔ اس لئے وہ ان ذرائع ابلاغ پر شیئر کئے گئے دینی باتوں بطور خاص نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات و فرامین کو شیئر کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ نہایت بابرکت اور اجر و ثواب کا باعث ہے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کو شیئر کرنے سے قبل اس کی صحت اور سند سے متعلق اطمینان حاصل کرنا لازمی ہے۔ بلا علم و تحقیق کسی حدیث شریف کو نقل کرنا ہلاکت و خسران کا موجب بن سکتا ہے۔ اگر نشر کی گئی حدیث من گھڑت یا موضوع ہوتو اس موضوع و مکذوب حدیث کو نقل کرنے، اس کو عام کرنے اور لوگوں میں غلط حدیث کو عام کرنے کا گناہ اس کے سر رہے گا۔ حدیث شریف کو نقل کرنے سے قبل اس کی استناد اور تحقیق ضروری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔ من تعمد علیّ کذبا فلیتبوأ مقعدہ من النار : جو شخص مجھ پر عمداً جھوٹ باندھے اس کو چاہئے کہ دوزخ کو اپنا ٹھکانہ بنالے۔ (بخاری شریف)

مسلم شریف کے مقدمہ میں حصرت محمد بن سیرینؒ سے منقول ہے: بلا شبہ یہ علم دین ہے پس تم غور کرو کہ کس شخص سے تم اپنا دین حاصل کرتے ہو۔ اسلام میں عام لوگوں کی ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرنے کی مذمت آئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے، کفی بالمرء کذبا أن یحدث بکل ما سمع (ترجمہ: آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ ہر اس چیز کو بیان کرے جس کو وہ سنا ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ایک ایک ارشاد حرف محکم اور قانون ہے۔ اس کے نقل کرنے میں حد درجہ احتیاط ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین ، محدثین و فقہاء روایت کے قبول کرنے کے لئے غیر معمولی محتاط رہے، اسناد روایتوں کی نقل و تحقیق کے لئے شرائط و اصول مقرر کئے تاکہ حتی المقدور حدیث شریف کے باب میں کوئی بات جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے منسوب نہ ہو شامل نہ ہوسکے۔

امام ذھبی نے تذکرۃ الحفاظ میں بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں ایک حدیث شریف بیان کی جس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو حدیث تم نے بیان کی ہے اس پر ثبوت پیش کرنا تم پر لازم ہے، حضرت ابی بن کعب متفکر ہوئے اور انصار کے چند لوگوں سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی اس حدیث کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے، اور انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے اس کا ذکر کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب سے فرمایا : میں نے تم پر الزام نہیں لگایا بلکہ اس بارے میں قطعیت کو جاننا چاہا۔
خطیب بغدادی نے الکفایۃ فی علم الروایۃ میں نقل کیا: امام اوزاعیؒ جیسے محدث روایت حدیث میں تثبت اور احتیاط سے متعلق فرماتے ہیں: ہم حدیث شریف سنتے تھے اور اس کو ہمارے اصحاب پر پیش کرتے تھے جس طرح کھوٹے سکہ کو پرکھا جاتا ہے جب وہ اس حدیث شریف کی تصدیق کرتے تو قبول کرلیتے اور اس سے جس کا وہ انکار کرتے ہم اس کو ترک کردیتے۔ اسی کتاب میں ہے : حضرت جریر فرماتے ہیں: جب میں کوئی حدیث سنتا تو میں پہلے حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوتا اور اس کو پیش کرتا اگر وہ اثبات میں جواب دیتے تو قبول کرلیتا۔

مسلم شریف میں حضرت عروہ بن زبیرؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا : مجھ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اے میری بہن کے بیٹے! مجھے اطلاع ملی کہ عبداللہ بن عمروؓ حج کے لئے ہمارے پاس سے گزرنے والے ہیں تم ان سے ملاقات کرو اور ان سے سوال کرو کیوں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت سا علم حاصل کیا ہے۔ انہوں نے کہا : پس میں نے ان سے ملاقات کی اور ان سے کئی چیزوں کے بارے میں سوال کیا۔ وہ ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے سے بیان کرتے گئے۔ ان میں سے ایک حدیث یہ بھی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : یقینا اللہ علم کو لوگوں سے ایکدم نہیں نکال لیتا بلکہ علماء کو اٹھالیتا ہے تو ان کے ساتھ علم بھی اٹھالیا جاتا ہے اور لوگوں میں جاہل سردار رہ جاتے ہیں۔ جو بغیر علم کے فتویٰ دیتے ہیں اور گمراہ کردیتے ہیں، حضرت عروہ نے کہا جب میں نے اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا تو انہوں نے اس حدیث کو عظیم جانا اور قبول نہیں کیا اور سوال کیا: کیا انہوں نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ پھر جب حضرت عبداللہ بن عمرو حج سے واپس ہورہے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت عروہؓ سے فرمایا جائو ان سے وہی حدیث کا سوال کرو جو انہوں نے بیان کی تھی۔ میں نے ان سے ملاقات کی اور سوال کیا تو حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے اس حدیث کو بعینہ پہلی مرتبہ کی طرح ذکر کیا۔ جب حضرت عائشہؓ کو اطلاع ہوئی تو فرمائیں میں یقین کرتی ہوں کہ وہ سچے ہیں کیوں کہ انہوں نے نہ کمی کی ہے اور نہ ہی اضافہ کیا ہے۔

احادیث شریفہ کو نقل کرنے میں حزم و احتیاط سے متعلق امام مسلم نے صحیح مسلم کے مقدمہ ۶۰/۱ میں جامع بات کہی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں :
’’ تو جان لے۔ اللہ تعالیٰ تجھے توفیق دے ! ہر شخص پر صحیح اور سقیم روایات اور ثقہ و متھم ناقلین کے درمیان فرق و تمیز کو جاننا واجب ہے اور یہ کہ احادیث میں سے انہی کا بیان کرنا لازم ہے۔ جن کے ماخذ کی صحت اور ناقل کی عدالت کاعلم ہو۔ تہمت والوں، سرکش اور اہل بدعت کی روایات سے بچنا لازم ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لائے تو اس کی خوب تحقیق کرلیا کرو۔ کہیں تم نادانی میں کسی قوم کو تکلیف نہ پہنچا بیٹھو پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جائو۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان لوگوں کو گواہ بنائو جس سے تم راضی ہو (بقرہ ۲/۲۸۲) اور تم میں سے دو عادل گواہ بنائو۔
پس فاسق کی خبر ساقط الاغیار اور غیر مقبول ہے اور غیرعادل کی گواہی مردود ہے۔ جس طرح قرآنی آیات فاسق کی خبر کے غیر مقبول ہونے پر دلالت کرتی ہیں اسی طرح سنت سے بھی ثابت ہے کہ منکر روایات مقبول نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : جو مجھ سے کوئی حدیث بیان کرے اور وہ جھوٹ معلوم ہوتی ہو تو بیان کرنے والا جھوٹا ہے۔
پس بلا تحقیق و تفتیش سوشیل میڈیا پر احادیث شریفہ کو شیئر کرنا شرعاً درست نہیں اور غلط روایت نشر کردی جائے تو وبال جان ہوگی اس لئے بلا تحقیق شیئر کرنے میں حتی المقدور احتیاط ضروری ہے۔