سوشیل میڈیا ‘ جھوٹی خبریں اور حکومت

کچھ جھجکتا ہے ‘ نہ ڈرتا ہے ‘ نہ شرماتا ہے
نت نئی فتنہ گری روز ہی دکھلاتا ہے
سوشیل میڈیا ‘ جھوٹی خبریں اور حکومت
آج کل کے سوشیل میڈیا کے دور میں کسی بھی خبر کی توثیق یا تردید جتنی آسان ہونی چاہئے تھی اتنی ہی مشکل ہوگئی ہے ۔ لوگ جھوٹی خبروں پر یقین کرکے دوسروں کی زندگیوں کو ختم کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں اور سچی خبریں کہیں دبی کی دبی رہ جاتی ہیں۔ یہ صورتحال ایسی ہے جس نے ہندوستان بھر میں نفرت کے ماحول کو ہوا دینے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں ویسے تو ہجومی تشدد اور معصوم و بے گناہوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردینے کے واقعات عام ہوگئے ہیںاور محض شبہ اور افواہوں کی بنیاد پر گئو دہشت گردوں نے اس رجحان کا آغاز کیا تھا اور کئی شہروں میں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا ۔ بعد میں یہ کہا جانے لگا ہے کہ سوشیل میڈیا پر جھوٹی خبروں کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت آج کل پائے جانے والے رجحان کو عذر کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ہجومی تشدد کے جتنے واقعات پیش آئے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کے سب سوشیل میڈیا کی خبروں کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ ایک مخصوص طبقہ کی جانب سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور انہیں خوفزدہ کرنے کی حکمت عملی کا حصہ تھے ۔ ہجومی تشدد پر حالیہ عرصہ میں سپریم کورٹ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے اور کہا کہ ایسے واقعات روکنا ان حکومتوں کی ذمہ داری ہے لیکن شائد بی جے پی ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے اپنے بچنے کے بہانے تلاش کر رہی ہے اور سوشیل میڈیا کی شکل میں اسے یہ بہانہ ہاتھ بھی آگیا ہے ۔ حالانکہ سوشیل میڈیا آج کل نفرت پھیلا نے کا ذریعہ بن گیا ہے اور اس کے ذریعہ ناپاک عزائم پورے کئے جا رہے ہیں لیکن تمام ہی واقعات کو محض ان افواہوں کا نتیجہ قرار دینا مناسب نہیں ہوگا ۔ اس کیلئے وہ عناصر ذمہ دار ہیں جو مسلسل نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر افشانی کرتے جا رہے ہیں اور ملک کے تعلیمی نظام کو تک بخشنے کو تیار نہیں ہیں اور وہاں بھی اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے منافرت پر مبنی سوچ اور فکر کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ حالیہ چند ہفتوں میں سوشیل میڈیا پر غلط خبروں کی تشہیر اور افواہوں کو پھیلانے کے نتیجہ میں ہجومی تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں ۔ یہ رجحان بھی ملک کیلئے اور ملک کے امن و یکجہتی کیلئے خطرہ ہے ۔ اس کے تدارک کیلئے بھی کوشش ہونی چاہئے اور اس کی ذمہ داری بھی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ حکومت اس لعنت کیلئے سوشیل میڈیا کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے خود بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ سوشیل میڈیا پر بھی اب جبکہ حکومت ہر طرح سے نظر رکھنے کوشاں ہے ‘ نت نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں ‘ ہر چند دن میں نئے ضوابط پیش کئے جا رہے ہیں ایسے میں اگر سوشیل میڈیا پر نفرت پھیلائی جاتی ہے تو پھر حکومت کی کوششوں پر اور اس کی سنجیدگی پر سوال پیدا ہوتا ہے اور یہ سوال فطری بات ہے ۔ حکومت محض منافرت پھیلنے سے روکنے کے نام پر کسی کی پرائیویسی میں دخل نہیں دے سکتی لیکن ساتھ ہی شخصی آزادی کے نام پر منافرت پھیلانے والوں کو بھی آزاد گھومنے کی اجازت دینا خطرہ سے خالی نہیں ہوگا ۔ حکومت کو محض دکھاوے کے اور رسمی اقدامات کرنے کی بجائے ایک منظم اور جامع منصوبہ کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس معاملہ میں حکومت کو اپنی سنجیدگی کا ثبوت دینا ہوگا ۔ جب تک حکومت سنجیدگی کے ساتھ اور اس سے زیادہ غیر جانبداری کے ساتھ کام نہیں کرتی اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اور نہ اس لعنت پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس پر ان عناصر کا پتہ چلائے جو ایک مخصوص سوچ اور نظریہ کے تحت نفرت پھیلانے کی مہم چلا رہے ہیں۔ ان کے عزائم کو آشکار کرنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت ان عناصر کو کیفر کردار تک پہونچانے کی بجائے خود کے بچنے کی راہ تلاش کر رہی ہے ۔ حکومت اپنی عدم سنجیدگی سے بالواسطہ طور پر ان عناصر کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ اس لعنت کو ختم کرنے کیلئے حکومت کو پہلے زعفرانی سوچ کو بدلنا ہوگا اور ملک اور ملک کے امن وہم آہنگی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے ۔