سود کواسلام نے حرام قرار دیا ہے،چونکہ سودی نظام معاشرہ کے مجبورافراد کو مزید مجبوربنا دیتا ہے،اسکے برعکس اسلام کے معاشی نظام کی بنیاد ہمدردی،خیر خواہی،دلجوئی اورایک دوسرے کا سہارا بننے ، بے یارومددگارمصیبت زدہ انسانوں سے تعاون پر ہےاس لئے اسلامی نظام معاش اورغیر اسلامی نظام معاش میں زمین وآسمان کا بعدہے۔ دورِ حاضر میں انسانوں کو عیش کوشی میں مبتلا کرنے کیلئے کئی قسم کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔خاص طور پر مسلمانوں کو اپنے دین سے دور کرنےاور حرام میں مبتلاکرنے کےخوشنما طریقے ایجادکردئیے گئے ہیں تا کہ حرمت کی قباحت و شناعت دلوں سے نکل جائے۔لیکن کسی قبیح و شنیع شئے کو مزین کر دیا جائے ۔اور اسکودیدہ زیب اور خوش رنگ لحاف میں لپیٹ دیا جائے ۔تو اس سے نجس و ناپاک شئے پاکیزہ نہیں ہوجاتی ۔اسلام نے جسکو حلال کیا ہے۔وہ تا قیامِ قیامت حلال ہے۔اور جسکو اسلام نے حرام کردیا ہے وہ ابد الاباد تک حرام ہے۔اسلام کا نظام معیشت احسان کے اصولوں پر مبنی ہے۔ضروریاتِ زندگی کی بہت سی اشیاء انسانی زندگی کی بنیادی احتیاجات سے تعلق رکھتی ہیں۔اسلام یہ چاہتا ہے کہ محتاجوں کی مددہو ۔ اور بنیادی احتیاجات جن کا تعلق انسان کی معیشت سے ہے وہ بآسانی پوری ہوں۔اس لئے اسلام نے خوشحال افراد کورضائے الہی کے لئے بد حال انسانوںکی مدد کرنے کی تلقین کی ہے۔ سخی ’کریم الطبع ‘انسانوں کا درد رکھنے والے افرادجہاں سماج میں ہمیشہ رہےہیں جو دکھی دلوں کا مداوا کرکے خوش ہوتے ہیں اور رضائے الہی کیلئے محتاج انسانوں سے احسان وسلوک کا معاملہ کرتے ہیں اور اس کار خیر میں وہ کسی صلہ یا شکریہ کے متمنی نہیں رہتے ‘وہیں ایسے بخیل ، مالدار انسان سماج کا حصہ رہے ہیں جو مال ودولت کے خزانے رکھنے کے باوجو د بڑے سنگ دل اور تنگ دل ہوتے ہیں اسلئے مجبور ومعذور انسانوں کی مدد کرنے کا موقع ہو تو ان کے دل مدد کرنے کی طرف آمادہ نہیں ہوتے کیونکہ وہ مزید مال کی طلب وچاہت رکھتے ہیں اس لئے غریبوں کی مدد کیلئے ان کے دل نہیں پگھلتے، کسی مجبور کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے دل میںکسی دردوکسک کا احساس نہیں ہوتا اس لئے وہ قرضِ حسنہ دینا بھی گوارا نہیں کرتے بلکہ سود پر قرض دیتے ہیں، پھروہ غریب ومحتاج بروقت قر ض ادانہ کرسکے تو سود در سود کے ذریعہ قرض کی رقم بڑھادیتے ہیں ،رقم کی ادائی میںمجبورا کچھ کوتاہی ہوجائے تو بسا اوقات ظلم وزیادتی کرنے اور غیر انسانی رویہ اختیار کرنے سے بھی باز نہیں آتے بلکہ ان مجبوروں پر خوب ظلم ڈھاتے ہیں اور اگر وقت مقررہ پر اصل اور سود کی رقم حاصل نہ ہوسکے تو غریب ومحتاج کے وہ اثاثہ جات جو اس کی بنیادی ضرورت سے تعلق رکھتے ہیں اس سے اس کو محروم کردیتے ہیں ۔سودی نظام اسلام کی آمد سے پہلے دور جاہلیت میں بہت زیادہ رائج تھا جہاں غریبوں اور محتاجوں کا اس کے ذریعہ استحصال کیا جاتا تھا ، اسلام نے اس کو یکلخت حرام قرار دیدیا ۔ارشاد باری تعالی ہے : اللہ تعالی نے تجارت کو حلال کیا اورسو دکو حرام کیا ہے اب جواللہ سبحانہ کی اپنے پاس آئی ہوئی نصیحت کو سن کر رک گیا اسکے لئے وہ ہے جوگزرااوراسکا معاملہ اللہ کی طرف ہے،اورجوپھر دوبارہ حرام کی طرف واپس لوٹا وہ جہنمی ہے ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے(البقرۃ:۲۵۷ )’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرواور جو سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم حقیقی معنی میں ایمان والے ہو ،اگر تم نے ایسا نہیںکیا تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کیلئے تیار ہوجائو‘‘(البقرۃ:۲۷۸۔۲۷۹ )اخلاقی ،معاشرتی اور اقتصادی ہر طرح سے سود کی خرابی اور برائی کی وجہ اس کی حرمت بڑے شدومد کے ساتھ بیان کی گئی ہے ، سود کی وجہ چونکہ سماج میں خود غرضی پنپتی ہے ، قرض حسنہ دے کرمال کے حریص سرمایہ داروںکوثواب حاصل کرنے کی خواہش نہیں رہتی نہ ہی دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا ہے ،اس لئے مزید مال جمع کرنے کی غرض سےوہ بہر صورت نفع حاصل کرنے کی طرف متوجہ رہتے ہیں ،سماج میں کوئی ضرورت مند ہو ،محتاج ہو ،بیمار ہو ،بھوک وپیاس سے تڑپ رہا ہو اس سے ان کو کوئی مطلب نہیں ہوتا ،شقاوت وسنگدلی کی وجہ وہ الہی احکام کو پامال کرکےخود اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں اور مجبور انسانوں پر بھی ظلم وستم ڈھاتے ہیں ۔اس لئے اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا کہ سود خور کھڑے نہیں ہوسکیں گے مگر اسی طرح کھڑے ہوسکیں گے جس کو شیطان نے چھوکر خبطی اور مجنوںکردیا ہو(البقرۃ:۲۷۵) اس آیت پاک میں سود خور کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ مال ودولت کی محبت وچاہت میں وہ اس قدر دیوانہ ہوجاتا ہے اور ایسی غیر معقول ،غیر انسانی حرکتیں اس سے صادر ہوتی ہیں جیسے وہ آسیب زدہ ہو، لوگ اس کو نامعقول انسان تصور کرتے ہیں ،یہ بھی کہ وہ کل جب قبر سے اور حشر میں اٹھےگاتو دیوانہ ومجنون جیسالگے گا ۔احادیث مبارکہ میں بھی اس پر سخت وعید وارد ہے ،حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادد مبارک ہے ’’ جان بوجھ کر ایک درہم سود کھانا چھتیس مرتبہ گناہ کرنے سے بھی زیادہ گناہ ہے‘‘(مسند احمد:۳۱۴۵۰)ایک اورحدیث پاک میں وارد ہے’’سودکھانے کا ادنی گناہ اپنی ماں سے زنا کرنے کے برابرہے ‘‘(مشکوۃ المصابیح:۱؍۲۴۶) جو سماج ظلم وجو راور مجبوروں اور کمزوروں کے استحصال پر مبنی تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسےسود خوار معاشرہ کی تطہیر فرمائی ۔ انسانی ، اخلاقی ،ہمدردی وغمخواری اور محتاجوں کی مدد ودستگیری ، بیوائوں وکمزورں کی سرپرستی جیسے پاکیزہ اصولوں پر اس کی تعمیر فرمائی ۔موجودہ دور کا اقتصادی ڈھانچہ سود پرتعمیر کیا گیا ہے ،گویا اس وقت سودی لین دین سماج کی ریڑھ کی ہڈی بن گیا ہے ، زمانہ جیسے جیسے ترقی کررہا ہے ویسےویسے انسانی معاشرہ نئے نئے مسائل سے دوچار ہے ،ترقی یافتہ سماج میں آج بھی شخصی ،سودی ادارے جہاںعروج پر ہیں وہیں مغرب نے غیراسلامی طرز کے بنکوں کا نظام قائم کرکے بڑے پیمانے پر سودی نظام کوفروغ دیا ہے ،قدیم سودی نظام میں جبر وظلم اور غریب محتاج انسان کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا تھا ،مجبور انسان ناروا استحصال پر مبنی نظام سے سمجھوتے پر مجبور تھے ،
بنکوں کے نظام میں جبر وظلم اور استحصال کا بظاہر کوئی عنصر دکھائی نہیں دیتا ، لیکن اس کے باوجود اس کے جواز کی رائے نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہ غیر اسلامی اصولوں پر قائم ہے ،اسلامی اصول وضوابط جو انسانیت کی بھلائی ، خیر خواہی اور انسانی سماج کی پاکیزگی پر مبنی ہیں،اس نئے سودی نظام میں اس کا فقدان ہے ،بنکوں کے سودی نظام کے علاوہ بہت سی کمپنیاں سودی لین دین کو بڑھاوا دے رہی ہیں اور ان کے خوش کن عنوانات کی وجہ بلا ضرورت بھی صرف اضافی عیش وآرام کے اسباب حاصل کرنے کی غرض سے سماج کا بڑا طبقہ اس مصیبت میں گرفتار ہورہا ہے، بروقت رقم کی ادائیگی کے اسباب مہیانہ ہونے کی وجہ بعض کمزور دل افراد خودکشی پر مجبور ہیں ،ان کی نادانی اور اسلام سے دوری نے ان کو ایسے انتہائی اقدام پر مجبور کردیاہے ، اس کا بہترحل وہی ہے جسکی اسلام نے ہدایت دی ہے،مالدار اور صاحب حیثیت افراد کو چاہئے کہ خیرخواہی و طلب رضائے الہی کے جذبہ سے اپنے خاندان اور اپنے حال وماحول کا جائزہ لیکر محتاجوں ،تنگ دستوں کی خوب خوب مدد کریں ،زکات کے علاوہ صدقات نافلہ سے بھی اس انسانی بھلائی کے کام میں اپناحصہ ادا کریں،حسب ضرورت حاجت مندوں کوقرض حسنہ فراہم کریں۔موجودہ بنکوں کے سودی نظا م سے متعلق اکثر علماء کی رائے عدم جوازکی ہے جبکہ بعض علماء اس کے جواز کی رائے رکھتےہیں ۔دونوں کےہاں دلائل ہیںان کو واضح کرنے کا یہاں موقع نہیں ،ان شاء اللہ آئندہ ہر دوکی آراء پیش کرنے کی سعی کی جائے گی،ہر دوآراء کے پیش نظر بہتربات یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنکوں میں اپنی جمع شدہ رقم پر جو زائد رقم بطور انٹرسٹ ملتی ہے وہ بھی چونکہ اکثریت کی رائے سے سود ہی مانی گئی ہے اس لئے سودی خرابی سے بچنے کیلئے صاحب حیثیت افراد اپنے اور اپنے اہل وعیال پر اس رقم کو خرچ کرنے سے سخت اجتناب کریں ، اور بنام انٹرسٹ بنک کی سودی رقم سےہر گز استفادہ نہ کریں ،بلکہ اس رقم کو غرباء ومحتاجوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل یا غریب بچوں کے تعلیمی مقاصد میں صرف کریں ، البتہ وہ ضعیف ،کمزور اور محتاج مرد وخواتین جن کے ہاں ایک مختص سرمایہ ہے جس سے وہ از خود کاروبار نہیں کرسکتے ۔ موجودہ سماج کے غیر دینی وغیراسلامی مزاج کی وجہ کسی پر اعتمادوبھروسہ کرکے اپنی مختصرپونجی اسلامی اصولوں کے مطابق تجارت وکاروبار کرنےکیلئے کسی کے حوالے نہیں کی جاسکتی۔کیونکہ تجربات اس کے شاہد ہیں کہ اصل سرمایہ اور اس پر ملنے والا نفع دونوں ہی خطرہ میں پڑجاتے ہیں،اس لئے اصل سرمایہ کی حفاظت اور اس پر ملنے والے نفع کی کوئی یقینی ضمانت نہ ہونے کی بنا بنکوں میں اگر وہ اپنی رقم محفوظ کرتے ہیں تو اس رقم پر ملنے والی زائد رقم جو بنام انٹرسٹ ملتی ہے ،بصورت مجبوری ایسے افراد کیلئےاس کے استعمال کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ، ایسے افراد کیلئے ان علماء کی رائے سے اتفاق کیا جاسکتا ہے جو غیر اسلامی ممالک میں بنک انٹرسٹ کے جواز کی رائے رکھتے ہیں۔حالیہ عرصہ میں یہ نیوز اخبارات میں شائع ہوئی ہے کہ ملت اسلامیہ کا اکثر طبقہ سود کی حرمت کے پیش نظر بنکوںکے کھاتوں میں جمع ہونے والی سودی رقم کو بنکوں میں چھوڑ رہا ہے جوبہت بڑے سرمایہ پر مشتمل ہے جس کے بارے میں یہ خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ وہ رقم اسلام اور مسلمانوںکے خلاف استعمال ہوسکتی ہے،اس لئے ملت اسلامیہ کی عالمی سطحی پر ذہن سازی کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی جمع شدہ رقم پر ملنی والی زائد رقم بنکوں سےضرور حاصل کرلیں ،حسب صراحت بالا خود محتاج ہوں تو اپنی اور اپنے اہل وعیال کی بنیادی ضرورتوں پر خرچ کریں، ورنہ امت مسلمہ کے غریب افراد تک اس رقم کو پہونچادیں۔ اس وقت ملت اسلامیہ کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ، روٹی ،کپڑا ،مکان ،تعلیم ،صحت وغیرہ جیسے گمبھیر مسائل کی وجہ انکے دین وایمان کوشدید خطرہ لاحق ہے ۔ایسے میں ملت اسلامیہ کا درد رکھنے والے مخلص افراد یا تنظیموں کا فرض ہے کہ وہ ان مسائل کے اجتماعی حل کیلئے مذکورہ سودی رقم کےاستعمال کی منصوبہ بندی کریںتاکہ مجبور،لاچاراوربے بس انسانیت کے دکھوں کا مداوا ہوسکے ۔