حکومت ہند کی جانب سے کالے دھن کے خلاف ہندوستان میں کئی اقدامات کرنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کے ہر نمائندے اور ہر گوشے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ کالے دھن کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی گئی ہے جس کے نتیجہ میں اپوزیشن کی صفوں میں بوکھلاہٹ پیدا ہوگئی ہے اور اسی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کو آئندہ انتخابات میں شکست سے دوچار کرنے آپس میں اتحاد کی کوشش کر رہی ہیں۔ ابھی یہ بات واضح طور پر سامنے نہیں آئی ہے کہ آیا واقعی اپوزیشن جماعتوں کے مابین آئندہ انتخابات کیلئے ملک گیر سطح پر کوئی اتحاد ہوگا اور کوئی مہا گٹھ بندھن تیار ہوگا یا نہیں کیونکہ اس تعلق سے مختلف گوشوں سے اندیشوں کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ مہاراشٹرا میں این سی پی کے سربراہ شرد پوار نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل مہا گٹھ بندھن قابل عمل نہیں ہے ۔ تاہم ایک حقیقت کا اب انکشاف ہوا ہے کہ گذشتہ سال 2017 میں سوئیز بینک میں ہندوستانی ڈپازٹس میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ اضافہ کوئی معمولی بھی نہیں بلکہ 50 فیصد ہوا ہے جو ایک بھاری اضافہ کہا جاسکتا ہے ۔ حکومت کی جانب سے کالے دھن کے خلاف کارروائی کے دعووں کے دوران گذشتہ تین سال کے دوران سوئیز بینکوں میں ہندوستانی ڈپازٹس کی تعداد میں کمی واقع ہوئی تھی لیکن ایک سال کے دوران جو اضافہ ہوا ہے وہ تین سال کے دوران ہونے والی کمی سے زیادہ ہے اور یہی بات قابل تشویش ہے ۔ اس قدر بھاری تناسب سے اگر ہندوستانی ڈپازٹس کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے تو پھر حکومت کی جانب سے کالے دھن کے خلاف کئے جا رہے اقدامات کے موثر ہونے پر سوال پیدا ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جب نومبر 2016 میں نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ کالے دھن کے خلاف کارروائی کے مقصد سے ہی یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے پچاس دن میں حالت سدھارنے کی بات کہی تھی لیکن اب تک حالات اس کی وجہ سے متاثر ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد جو کرنسی چلن میں تھی تقریبا تمام بینکوں میں جمع بھی ہوچکی ہے ۔
جب یہ رقومات بینکوں میں جمع کروادی گئی تو پھر کالا دھن گیا کہاں ؟ ۔ اپوزیشن کی جانب سے مسلسل الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ مودی حکومت میں بیرونی ملکوں میں جمع کالا دھن تو ہندوستان واپس نہیں آیا بلکہ ہندوستان میں موجود جائز دولت کو کالے دھن میں تبدیل کرتے ہوئے بیرونی ملکوں کو منتقل کیا جا رہا ہے ۔ اب سوئیز بینک کی جابن سے جاری کردہ اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ الزام درست ہی دکھائی دے رہا ہے ۔ مودی حکومت میں ایک طرح سے بیرونی ملکوں میں رکھے گئے کالے دھن کو ہندوستان لانے پر شائد ہی کوئی توجہ دی گئی ہے اور شائد ہی کوئی کارروائی کی گئی ہے ۔ کالا دھن واپس لا کر ہر ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں پندرہ تا بیس لاکھ روپئے جمع کرنے کی بات کو بی جے پی صدر امیت شاہ انتخابی جملہ قرار دے کر خود کو اور اپنی پارٹی کو بری الذمہ کرلینے کی کوشش بھی کی ہے ۔ تاہم حکومت کے کسی بھی نمائندے نے کالا دھن واپس لانے کے مسئلہ پر کوئی تبصرہ کرنا ضروری نہیں سمجھا ہے ۔ خود وزیر اعظم وقفہ وقفہ سے معاشی امور پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں لیکن انہوں نے بھی اب تک کالا دھن واپس لانے کیلئے کیا کچھ کارروائی کی گئی ہے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ بعض مرتبہ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس سلسلہ میں کارروائی کی جا رہی ہے لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کارروائی کس نوعیت کی ہے اور اس میں اب تک کیا ہوا ہے اور اگر کوئی پیشرفت ہوئی ہے تو کس حد تک ہوئی ہے ۔
سوئیز بینک میں 2017 میں ہندوستانی ڈپازٹس میں جو 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے وہ 2004 کے بعد سب سے بڑا اضافہ ہے ۔ 2004 میں یہ اضافہ 56 فیصد تھا تاہم اس کے بعد اس میں کبھی کمی اور کبھی بیشی ہوتی رہی ہے لیکن اتنا زیادہ اضافہ درج نہیں ہوا تھا ۔ پچاس فیصد اضافہ سے نریندر مودی حکومت کی جانب سے کالے دھن کو روکنے اور اس لعنت پر قابو اپنے کیلئے کئے جا رہے اقدامات پر سوال پیدا ہوگیا ہے ۔ حکومت کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے اقدامات میں کہاں کوتاہی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح کرنا چاہئے کہ حکومت کی کارروائیوں کے باوجود اتنی بھاری رقومات کی منتقلی سوئیز بینک تک کس طرح سے عمل میں آئی ہے ۔ اس کے پس پردہ محرکات کا پتہ چلا کر حکومت کو ان سب کو ملک اور ملک کے عوام کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔