سنہ ہجری کا آغاز۔ایک جائزہ

الحمدللہ سارے عالم کے مسلمان بلکہ سارے انسان ۱۴۳۹؁ھ کے اختتام کے ساتھ نئے سال ۱۴۴۰؁ھ میں داخل ہوچکے ہیں، ایمان واسلام اوراسکے تقاضوں پرعملی استقامت کے عزم مصمم اور اس دعاء کے اہتمام کے ساتھ اسلامی سال نومیں قدم رکھنا چاہیئے۔ اَللّٰہْمَّ اَدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِاْلاَمْنِ وَاْلِایْمَانِ وَالسَّلاَمَۃِ وَالْاِسْلاَمِ وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجَوَازٍ مِّنَ الشَّیْطَانِ۔اے اللہ اس نئے سال کوہم پرامن وایمان ،سلامتی واسلام اوراپنی رضامندی نیزشیطان سے پناہ (بچائو)کے ساتھ داخل فرماِ(المعجم الاوسط للطبرانی : ۶؍۲۲۱) ۔ اسلامی اعتبارسے نئے سال کا آغازماہ محرم الحرام سے ہوتاہے، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشاورت کے بعد متفقہ طورپر نئے سال کے آغازکیلئے سن ہجرت کا انتخاب ہوا،سب سے پہلی وحی مکۃ المکرمہ غارحرا میں نازل ہوئی ، اسلام کے اعلان کے بعدمسلمان ستائے گئے ،ان پر ظلم کے پہاڑتوڑے گئے ،اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی آزادی چھین لی گئی تھی ، معاشرتی ،سماجی وسیاسی سطح پر جوحقوق شہریوں کوملنے چاہیے تھے ان سے مسلمان محروم کردئیے گئے تھے۔ انصاف رسانی کیلئے اللہ کے سواکسی اورکا دروازہ کھٹکھٹا نے کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی جبکہ اس مادی دنیا میں انصاف کیلئے حکام سے رجوع کرنا نظام اسلامی کا ایک حصہ ہے،باطل کی یلغارنے حق پر چلنے والے مسلمانوں کوحق پر قائم رہنے اورحق کی اشاعت کرنے سے محروم کررکھا تھا،مختصریہ کہ مسلمانوں کی مظلومیت انتہا ء کو پہنچ گئی تھی ایسے میں ہجرت کا حکم ملا ،باطل ہمیشہ حق سے نبردآزما رہا ہے ، اللہ سبحانہ کی رضاوخوشنودی کیلئے ہجرت کرنے سے حق کے راستے کھلتے ہیں ،باطل کی مدافعت کرنے اورحق کے پھیلانے کے مواقع میسرآتے ہیں ، چنانچہ اللہ سبحانہ کے فضل وکرم سے مدینہ پاک ہجرت سے مسلمانوں کی مظلومیت کے دورکا خاتمہ ہوااورباطل کی پسپائی کا دورآگیا،تمام شعبہ ہائے حیات میں اسلامی احکام کا سکہ رائج ہوگیا،مسلمانوں کو سربلندی نصیب ہوئی ،اللہ سبحانہ کے سوا اب کسی کی حاکمیت باقی نہیں رہی،ہجرت کے بعداسلام کی روشنی تمام بلادوامصارسے ہوتے ہوئے سارے عالم میں پھیل گئی،ہجرت کا واقعہ گویا حق وباطل کے درمیان خط فاصل بن گیا،سال نو کے آغازکیلئے سن ہجرت کا انتخاب کئی ایک عظیم مصالح کا آئینہ دارہے ۔سال نوکا آغازمسلمانوں کو ایک انقلابی ودعوتی پیغام دے رہا ہے،

اس پیغام کی روح اورخلاصہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے اداروں کے نظم وانتظام ،کاروبارومعاملات اور معاشرتی امورکی انجام دہی میں سن ہجری کا لحاظ رکھیں ،سن ہجری ایک طرح سے اسلامی شعارہے اسلئے اسکی برقراری اوراسکی حفاظت میں مسلمان سنجیدہ رول اداکریں،سعودی حکومت جوبکثرت امورمیں سن ہجری کا لحاظ رکھتی تھی اوراپنے ماتحتین وملازمین کی تنخواہیں اسلامی کیلنڈرکے اعتبارسے ایصال کرتی تھی ، نئے سال کا آغازمحرم الحرام سے ہوتا اوراختتام ماہ ذی الحجۃ الحرام پر ، لیکن اب نئے قوانین کے روسے سال نوجنوری سے ڈسمبرپر مشتمل رہیگا، یہ تبدیلی صرف کچھ مالی بچت کیلئے کی گئی ہے ،اسلامی کیلنڈرچونکہ مروجہ گریگورین کیلنڈر سے کچھ دن چھوٹا ہوتا ہے ،عالمی سطح پر یہی کیلنڈر رائج ہے اسلئے اس پر عمل سے آجرین کی مدت محنت زیادہ ہوجائے گی اور حکومت کوکچھ مالی بچت حاصل ہوگی، اسلامی کیلنڈرکے مطابق تنخواہیں ایصال کی جائیں توآجرین کو کچھ مالی فائدہ زیادہ ہوگا، اس معمولی وحقیرمالی فائدہ کی غرض سے سعودی حکومت نے جوقدم اٹھایا ہے وہ ایک طرح سے اسلامی شعارپر ضرب کاری ہے ، اسلامی احکام واعمال میں عمومی کوتاہی ،مسلم ممالک اورمسلمانوں کے درمیان اتحادواتفاق کے فقدان ،سیاسی بصیرت سے محرومی ، مخالفین اسلام سے امورومعاملات کی انجام دہی میں جن نادانیوں کے ارتکاب کی وجہ بحیثیت مجموعی امت مسلمہ اسلام دشمن طاقتوں کا نرم نوالہ بن گئی ہے،ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ان کوتاہیوں کی وجہ جومصائب وآلام درپیش ہیں کوئی حکمت عملی اختیارکرکے اس سے نکلنے کی سنجیدہ کوشش کی جاتی ،اسلام دشمن طاقتوں کے زیررہنے کے بجائے انکوزیراثررکھنے کی کوشش کی جاتی، مالی مشکلات سے نکلنے کی یہ ایک اہم راہ ہے ،اسلام دشمن طاقتوں کاتوہدف ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کے دین وایمان پر حملہ کرنے ساتھ انکی معیشت کوتباہ وتاراج کیا جائے ، اس وقت زمین پر جتنے مسلم ممالک ہیں ان میں سے اکثراس مصیبت سے دوچارہیں ،اپنے ہی ہاتھوں اپنے دینی بھائیوں کا گلا گھوٹنے کی جوتاریخ امت مسلمہ رقم کررہی ہے وہ ایک افسوس ناک داستان ہے اوریہ سب اسلام دشمن طاقتوں سے تعلق رکھنے اورانکے زیراثررہ کر کارحکومت چلانے کی وجہ سے ہے۔ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا خون کیسے بہا سکتاہے،

مسلم حکومتیں ایک دوسرے کی رعایا کا قتل ، خون کیسے کرسکتی ہیں اورکس طرح دشمن طاقتوں سے ہتھیارخریدکراپنے ہاتھوں کیسے اپنے پیرپر کلہاڑہ چلاسکتی ہیں ؟اورکیسے ایک دوسرے کے املاک کو تباہ وتاراج کرسکتی ہیں ۔ اللہم احفظنا ۔حدیث پاک کی روسے مسلمان کہتے ہی اسکوہیں جسکی زبان اوراسکے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ایک حدیث پاک کی روسے مسلمان وہی ہے جس کے ضررونقصان سے ساری انسانیت محفوظ رہے،اورمومن وہ ہے کہ جس سے دوسرے مومن اپنی جان ومال کے بارے میں مامون ومطمن رہیں ۔ الغرض اسلام ،اسلام کے تقاضے ، اسلام کا طرزحکمرانی، اللہ کی زمین پراللہ کے احکامات کا نفاذ ،زندگی کے سارے شعبوں میں اسلامی احکامات کی اجرائی اور سن ہجری مسلمانوں کوعزیزہونا چاہیے ۔اس وقت دنیا میں خودغرضی عام ہے ایک دوسرے کا لحاظ وپاس،ہمدردی وغمخواری ،مروت ومہربانی ،اخوت وبھا ئی چارہ جیسے عالی اخلاق قصے کہانیاں ہوکررہ گئے ہیں۔ ایسے میں سن ہجرت کے آغازسے یہ تصوربھی تازہ ہونا چاہیے کہ پھرسے مسلمان ان عالی اخلاق کواختیارکریں،سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ نے مدینہ پاک ہجرت کے بعدانصارومہاجرین رضی اللہ عنہم کے درمیان بھائی چارہ اورمؤاخات قائم فرمایا تھا، اسلامی احکام پر عمل کی برکت سے یہ بھائی چارہ اہل اسلام کے درمیان مدتوں قائم رہا،اسکی وجہ وہ دشمن پرغالب رہے ۔سن ہجری کا آغاز اس وقت مسلمانوں کو درس دے رہا ہے کہ پھرسے وہ اسلامی احکا مات پر سچے دل سے عمل کرتے ہوئے اپنے درمیان اخوت وبھا ئی چارہ قائم کریں،یہ پیغام مسلم ممالک کے حکمرانوں کیلئے بھی ہے اورزمین پر بسنے والے سارے مسلمانوں کیلئے بھی، ہمارے ملک ہندوستان خاص کر حیدرآبادمیں آئے دن اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ فلاں مسلم نے فلاں مسلم کو ،فلاںمسلم رشتہ دارنے فلاں مسلم رشتہ دارکوقتل کردیا ہے۔اوراکثریہ قتل زمین وجائیداداورزمینوں کے کا روباری اختلاف کا نتیجہ بتا یا جاتاہے ،امت مسلمہ کی زندگی کا یہ کس قدرافسوسناک اورتاریک ترین پہلوہے !بے دینی ،بددیا نتی،دنیاکی ناجائزحرص وہوس انکومعمولی منفعت کیلئے اپنے بھائی کے قتل و خون پر آمادہ کررہی ہے ۔ زعمائے ملت اورملی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر خصوصی توجہ دیں،امت مسلمہ کواس کی برائی سے باخبرکریں اوراس مصیبت سے چھٹکا رہ دلائیں ۔شمس وقمرکے طلوع وغروب سے گردش لیل ونہارجاری ہے ،سیکنڈوں ،منٹوں ،گھنٹوں نے دن ورات کو اپنے گھیرے میں لے رکھاہے ،یہی رات ودن ،ہفتوں ،مہینوں میں تبدیل ہوکرایک سال کی گردش پوری کرلیتے ہیں ۔اسی کو وقت کہا جاتاہے ،وقت کیا ہے ؟وقت دراصل انسان کی عمرہے۔ عمرکے اس قیمتی حصہ کواگرلا یعنی ،بے کاروفضول اعمال واشغال اختیارکرکے ضائع کردیا جائے تواس سے بڑھ کر کیا نا دانی ہوسکتی ہے ، اس عمرکی قدروقیمت ہی کیا ہوسکتی ہے جسکوضائع کردیا جائے اوراپنے لئے زادِآخرت تیارنہ کرلیا جائے ۔اللہ سبحانہ نے ایمان والوں کو حکم دیا ہے اے ایمان والواللہ سے ڈرواورچاہیے کہ ہرشخص توجہ کرے کہ اس نے آنے والے کل کیلئے کیا بھیجا ہے،اللہ سے ڈرتے رہواللہ سبحانہ تمہارے اعمال سے باخبرہے(الحشر:۱۸)وقت کا غلط استعمال انسان کی دنیا وآخرت دونوں کو تباہ کرتا ہے اوراس کے صحیح استعمال سے دنیا وآخرت دونوں سنورسکتے ہیں ،انفرادی زندگی ہوکہ اجتماعی زندگی ہردو کی کامیابی کیلئے یہی ایک نسخہ جامعہ ہے۔قرآن پاک کی اور متعدد آیات سے وقت کی اہمیت ثابت ہے۔نصف رات کے بعد احقر کو متعدد مرتبہ دینی یا مذہبی پروگرام کے بعد پرانے شہرکی مسلم بستیوں سے گزرنے کا موقع ملتاہے ،بسااوقات غیرمسلم بستیوں سے گزرنے کی نوبت بھی آتی ہے ،غیرمسلم بستیوں میں بالکل سناّ ٹا ہوتا ہے جبکہ مسلم بستیوں سے گزرتے ہوئے مسلم نوجوانوں کے مشاغل کا مشاہدہ بھی ہوتا رہتاہے۔بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ مسلم نوجوان چبوتروں اورجابجا موٹرگاڑیوں پر بیٹھے اورکچھ اس کے آگے ٹھہرے نظرآتے ہیں ،گاڑی چلانے والے ڈرئیورصاحب ایک غیرمسلم بھائی تھے اس منظرکودیکھتے ہوئے انہوں نے اپنے لہجے میں مجھ سے سوال کیا کہ ’’صاب یہ لوگ آخرسوتے کب ہیں اوراٹھتے کب ہیں یہ بھی کہا کہ صاب ہماری بستیوں میں سڑکوں پر کوئی دیکھنے کو نہیں ملتا ‘‘ احقرکے ہاں اسکا کوئی جواب نہیں تھا ۔ اللہ سبحانہ نے رات آرام کیلئے بنائی ہے لیکن امت کے یہ نوجوان رات کو سونے کے بجائے اللہ سبحانہ کی اس نعمت کی ناقدری کرکے اسے یوں ضائع کررہے ہیں اوردن کونیندلینے کی روش اختیارکرکے معاشی بدحالی کا شکارہیں،جبکہ اللہ سبحانہ کا ارشادہے’’ہم نے تمہاری نیندکوآرام کا سبب بنایا اوررات کوہم نے پردہ بنایا ہے اوردن کوہم نے روزگارکے حصول کیلئے بنایا ‘‘ (النبائ:۹تا۱۱) رات کا اندھیارہ دراصل لباس کا کام کرتا ہے یعنی سارے نظام کوپرسکون بنادیتاہے کہ لوگ آرام کی نیندلے سکیں اوردن کوروشن کرنے کے جہاں اوربھی مقصودہیں ان میں ایک مقصدکسب معاش میں جدوجہدکوآسان سے آسان ترکرناہے۔ نیندجوراحت وآرام کا فطری تقاضہ ہے ،نیندکی وجہ اعمال کا تسلسل منقطع ہوجاتاہے اس لئے نیندکی آغوش میں جسم کے سارے اعضاء یہاں تک کہ دماغ کوسکون نصیب ہوتا ہے ،اوراللہ سبحانہ نے مذکورہ آیات پاک میں ایک لفظ ’’سباتا‘‘ استعمال فرمایا ہے جس کی اصل معنی راحت وسکون کے ہیں اس لئے خالق فطرت نے اس مقصدسے رات بنائی ہے ،دن کے اجالے میں میٹھی اورآرام دہ نیندکاکوئی تصورنہیں ،چونکہ حق سبحانہ نے اس کوتحصیل معاش میںتگ ودو کیلئے بنایا ہے۔ الغرض نئے سال کا آغازنئے عزائم،نئے ارادوں،نئے امنگوں اورحوصلوں کے ساتھ ہونا چاہیے ،امت مسلمہ کی اصلاح اورانکے غبارآلودآئینہ زندگی کوصاف وشفاف کرنے کی مہم کوتیزترکرنے کے ساتھ ہونا چاہیے ۔