سنجیدہ مسئلہ … غیر سنجیدہ اپوزیشن

مسئلے پر گام پر خود آپ گر پیدا کریں
سوچتا ہوں میں کہ پھر سنجیدہ ہوکر کیا کروں
سنجیدہ مسئلہ … غیر سنجیدہ اپوزیشن
ہندوستان کو نفرت انگیز ماحول میں بدلنے والی طاقت شاید ایک ہی ہے جس کی کڑیاں فرقہ پرستوں کے ہیڈکوارٹرس سے لے کر مرکز تک پھلائی گئی ہیں۔ اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے ماہر معاشیات نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نے درست انداز میں غیر فرقہ پرست طاقتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کا مقابلہ متحدہ طور پر کریں ۔ جو طاقتیں فرقہ پرستوں اور آمریت پسندوں سے مقابلہ کرنا چاہتی ہیں انہیں ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ملک کی جمہوریت کو لاحق خطرے سے محفوظ رکھنے کی مساعی کی جاسکتی ہے ۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی بقا ملک کے جمہوری اقدار کی بقا کے ساتھ مشروط ہے تو تمام سیکولر پارٹیوں کو وقت ضائع کئے بغیر باہمی طور پر متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ مرکز کی آمریت پسند حکومت نے جمہوریت کی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی صحیح نشاندہی کی ہے کہ ایک پارٹی صرف 31 فیصد ووٹ حاصل کر کے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ اپنے ناپاک مقاصد کو بروے کار لانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کررہی ہے ۔ اب ضرورت یہ ہے کہ اپوزیشن ان طاقتوں کے خلاف صف آراء ہوجائے ۔ آئندہ انتخابات میں جو دھاندلیاں کرنے کی حکمت عملی کی گئی ہے اس کا مقابلہ صرف متحدہ سیاسی اتحاد کے ذریعہ ہی کیا جاسکتا ہے ۔ اپنے اتحاد کے راستے بند نہ کریں ۔ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفادات کو ملحوظ رکھیں تو بلا شبہ ایک مضبوط سیاسی طاقت ابھر سکتی ہے جو فرقہ پرستوں کو دھول چٹانے میں کامیاب ہوگی ۔ عام انتخابات سے قبل مرکز کی موجودہ طاقت کے خلاف صف آراء ہونے کا نکتہ یہی ہے کہ تمام سیکولر جماعتیں باہم متحد ہوں کیوں کہ یہ مسئلہ براہ راست ہندوستان کی بقاء اور جمہوریت کے تحفظ کا ہے ۔ اگر ہندوستان کا ہر شہری آمریت پسندی کے خلاف اپنے اندر جذبہ پیدا کرلے تو نفرت کو ہوا دینے والے ان کے سامنے ٹک نہیں سکیں گے ۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی جے این یو میں طلباء کے ساتھ ہونے والے واقعہ کو ملک بھر کے شہریوں کے لیے لمحہ فکر قرار دینے والے ماہر معاشیات نے یہ درست کہا ہے کہ آج حکومت نے طلباء کو غداری کے الزام میں ماخوذ کیا ہے تو کل یہ ہندوستان کے شہریوں پر بھی غداری کے الزامات لگا کر جیل میں بند کردے گی ۔ سابق وزیر فینانس چدمبرم نے بھی ملک کی موجودہ کیفیت کو جمہوریت کی بقاء کے لیے خطرناک قرار دیا ہے ۔ ملک میں خوف کا ماحول پھیلایا جارہا ہے ۔ اس خوف کے ماحول سے ہندوستان کو آزادکروانے کے لیے اپوزیشن اتحاد کی جانب توجہ دینی چاہئے ۔ زعفرانی پارٹی کو شکست دینے کی حکمت عملی پر بات کی جارہی ہے لیکن اس کے لیے اب تک پہل نہیں ہوسکی ۔ سارا ملک اپنے سامنے خوف کا سایہ منڈلاتا دیکھ رہا ہے ۔ دلتیں خوف زدہ ہیں ، مسلمانوں کو خوف زدہ کیا جارہا ہے ۔ خواتین کو ڈر و خوف کی زندگی مل رہی ہے ۔ صحافت کو بھی خوف دلایا جارہا ہے ۔ الغرض ملک کے عوام اپنی سرزمین پر ہی جمہوری حقوق اور جمہوری موقف سے محروم کردئیے جارہے ہیں اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے ۔ خوف اور تباہی کا تعلق اگر کسی ایک خاص طاقت سے ہے تو اس طاقت کو ختم کرنے کے لیے کیا منصوبہ بندی ہونی چاہئے ۔ اس پر صرف بیانات ہورہے ہیں ۔ وقت آنے پر اگر اپوزیشن پارٹیاں اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر کنویں کے مینڈک ہی بنے رہیں گے تو ان پر بھی خوف طاری ہوجائے گا ۔ اس وقت مرکز میں برسر اقتدار جو طاقت ہے اس نے توسیع پسندی کے شوق کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سے کم طاقتوروں یا کمزوروں پر اپنا ایجنڈہ نافذ یا مسلط کرنا شروع کیا ہے ۔ اس کی طاقت کے تازہ ترین واردات ہر روز آپ کے سامنے ظاہر ہورہے ہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود اپوزیشن پارٹیوں نے صرف بیان بازی کے ذریعہ اتحاد کی رٹ لگا رکھی ہے تو اس سے مخالف طاقت مزید مضبوط ہوگی ۔ پھر اپوزیشن پارٹیاں اپنی ناک پر بیٹھی مکھی بھی ہٹانے کے لیے سنجیدہ نہیں ہوسکیں گی ۔۔