سنجیدہ اور معزز لیڈر

گر قیادت نہ ہو کہیں مخلص
قوم اور ملک کا خدا حافظ
سنجیدہ اور معزز لیڈر
پارلیمنٹ میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہ ملنے پر تیسرے محاذ کی حکومت بنانے کی جاریہ کوششوں کو کامیابی ملتی ہے تو یہ حکومت کتنے دن چلے گی، یہ پارلیمانی نظام کے لئے ایک اہم مسئلہ ہوگا۔ لوک سبھا انتخابات میں پارٹیوں کی نظریاتی جدوجہد اور عوامی مسائل پر توجہ دینے والی پارٹیوں کے درمیان کوئی راست مقابلہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ عوام کے نمائندوں کو اپنے ہی رائے دہندوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی ہوتی ہے یا منقسم رائے کی وجہ سے ایک معلق پارلیمنٹ کا وجود عمل میں آتی ہے تو یہ پارٹیوں کی پالیسیوں کی ناکامی اور رائے دہندوں کو عدم مطمئن کرانے کا نتیجہ ہوگا۔ پارلیمنٹ میں اچھے، سمجھدار، پالیسی ساز اور فیصلہ ساز قائدین کے فقدان کے باعث ہر مرتبہ ایوان کی عددی طاقت کا گراف غیر متوازن بنتا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ میں اب آزاد امیدواروں کی تعداد بھی گھٹ رہی ہے۔ یہ آزاد امیدوار اپنے علاقہ کی مؤثر نمائندگی کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی کامیابی مقامی رائے دہندوں کے اجتماعی اظہار اعتماد کا مظہر ہوتی، کیونکہ مقامی سطح پر جو قائدین خالص عوام کے پسندیدہ ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں، ان کی قدر و منزلت اور عزت و وقار بھی الگ ہوتا ہے۔ 1952ء میں جب لوک سبھا کا پہلا انتخاب ہوا تھا، اُس وقت سے اب تک 208 آزاد امیدوار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ یعنی اوسطاً ہر لوک سبھا میں 13 ارکان پارلیمنٹ آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوتے تھے، لیکن ہر لوک سبھا میں اتنی تعداد یعنی 13 ارکان آزاد نہیں رہے۔ پہلی لوک سبھا میں جہاں 36 ارکان آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوئے تھے، وہیں دوسری لوک سبھا میں ان کی تعداد گھٹ کر 25 ہوگئی تھی اور تیسری لوک سبھا میں یہ تعداد 20 ہوگئی اور چوتھی لوک سبھا میں 35 ارکان منتخب ہوئے تھے جب کہ پانچویں اور چھٹی لوک سبھا میں 15 اور 17 ارکان تھے۔ اس کے بعد کے لوک سبھا میں آزاد ارکان کی تعداد ایک ہندسی عدد کو عبور نہیں کرسکی، صرف 11 ویں لوک سبھا میں 11 ارکان آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔ اس مرتبہ بھی آزاد امیدواروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے مقابلہ آزاد امیدوار کی تعداد زیادہ ہوتی، مگر ان میں سے بہت ہی کم آزاد امیدوار منتخب ہوتے ہیں۔ ہر انتخابات میں آزاد امیدواروں کی تعداد بھی انتخابی میدان میں ہوتی ہے۔ اس مرتبہ جملہ 9,000 امیدواروں میں 3,500 امیدوار آزاد کی حیثیت سے مقابلہ کررہے ہیں۔ 2004ء کے انتخابات میں 8,070 امیدواروں میں 3,831 امیدوار آزاد تھے، لیکن وہ منتخب نہیں ہوئے۔ عوام انھیں ووٹ دینے سے گریز کرتے ہیں یا وہ عوامی مقبولیت، دولت، طاقت سے بہت دور ہوتے ہیں۔ ماضی میں مقامی سطح پر شخصیات اور خدمات کی بنیاد پر آزاد امیدوار کو منتخب کیا جاتا تھا۔ یہ آزاد ارکان حکومت سازی کے عمل میں اہم رول ادا کرتے ہیں، مگر اب ان کی تعداد گھٹ رہی ہے تو حکومت سازی کا عمل مخلوط بن گیا ہے۔ جاریہ لوک سبھا انتخابات کے بعد بھی جب کسی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوگی تو مخلوط حکومت تشکیل پائے گی۔ ہندوستانی پارلیمنٹ میں اب واحد پارٹی کی حکمرانی کا چلن بتدریج ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یو پی اے کو کانگریس زیر قیادت حلیفوں نے قائم کیا ہے تو بی جے پی نے اپنے حلیفوں کو لے کر این ڈی اے بنایا ہے۔ اب ان سے ہٹ کر جو پارٹیاں رہ جاتی ہیں، ان کا تیسرے محاذ کی جانب جھکاؤ ہوتا ہے۔ اگر مرکز میں تیسرے محاذ کی حکومت تشکیل پانے کی راہ ہموار ہوتی ہے تو کئی علاقائی پارٹیوں کے قائدین کو بڑے عہدے اور بڑی وزارتیں حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل دیکھا جائے گا۔ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس اور ٹامل ناڈو میں اناڈی ایم کے لیڈر جیہ للیتا وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ تمام قائدین اگر تیسرے محاذ کی تشکیل کی سمت کامیاب ہوتی ہیں تو وزارتِ عظمیٰ کے مسئلہ پر پھوٹ کا شکار ہوں گی۔ آندھرا پردیش سے تلگودیشم لیڈر چندرابابو نائیڈو نے بھی اگرچہ کہ بی جے پی سے ہاتھ ملایا ہے، مگر مرکز میں حکومت کا رُخ تیسرے محاذ کی جانب ہوتا ہے تو وہ بھی اس تیسرے محاذ کا حصہ بننے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ معلق پارلیمنٹ کی صورت میں سودے بازی کا بازار گرم ہوگا۔ آزاد امیدواروں کا رول بھی اس سودے بازی میں اہم ہوتا ہے۔ چندرابابو نائیڈو کو این ڈی اے کا ساتھ دینے کیوجہ سے سیما۔ آندھرا میں کچھ کٹر پسندی کے ووٹ ضرور ملیں گے، مگر وہ مرکز یا ریاستی سطح پر اقتدار حاصل کرسکیں گے؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ اچھے امیدواروں کو منتخب کرنا اور ایک بہترین حکمرانی قائم کرنا بہت بڑا فریضہ ہوتا ہے۔ عوام اس فریضہ میں اہم کردار ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے فیصلے اور حوصلے کی عزت کرنی چاہئے، جس کے بعد ہی ایک معزز حکمرانی کے وجود میں آنے کی توقع کی جاتی ہے۔