حیدرآباد۔5مارچ(سیاست نیوز)مسلمانوں کے ساتھ علاقہ تلنگانہ میں ہوئی ناانصافیوں پر اظہار خیال کے دوران انقلابی گلوکار و شاعر غدر نے کہاکہ خودساختہ جمہوریت میں انصاف ‘ حقوق کی فراہمی کا مفہوم ہی تبدیل کردیا گیا جبکہ علاقہ تلنگانہ میں جہاں پر بادشاہی نظام تھا باوجود اسکے عوام کو پینے کے پانی فروخت کرنے کی تجویز پر آصف جاہ صابع عوام کو پینے کا پانی فروخت کرنے کے بجائے اپنے آپ کو ختم کرلینے کا اعلان کیا تھا ۔ مسٹر غدر نے جمہوری نظام کا مفہوم بدل کر دبے ‘ کچلے طبقات کوووٹ بینک کی طرح استعما ل کرنے کا سرمایہ داروں اور مفاد پرست سیاست دانوں پر الزام عائد کیا۔انہوں نے متحدہ ریاست آندھرا پردیش کے 58سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہوئے ناانصافیوں کو جمہوری نظام کا واضح قتل عام قراردیتے ہوئے کہاکہ دستور ہند نے جہاں پرپسماندگی کا شکار طبقات کو مرعات اور تحفظات فراہم کئے ہیں وہیں پر اقتدار پر فائز مفاد پرست سیاست دانوں نے دبے کچلے اور پسماندگی کاشکار طبقات کو دی گئی رعایتوں اور تحفظات سے محروم رکھنے کی سازشیں رچی۔ مسٹر غدر نے کہاکہ متحدہ ریاست کے قیام کا سب سے بڑا نقصا ن علاقہ تلنگانہ کے مسلمانوں کو ہوا۔انہوں نے فرقہ پرست عناصر اور عہدیدارو ںپر مسلم نوجوانوں کو دھشت گرد ثابت کرتے ہوئے ان کے ساتھ زیادتیوں کا بھی الزام عائد کیا۔
غیر سماجی عناصر کے زمرے میں مسلمانوں کو لاتے ہوئے تعصب پسند عہدیداروں نے تمام مسلم معاشرے کو ملک کا غدار قراردینے کی سازش تیار کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہاکہ سمپورنا تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے لئے مسلمانوں کے ساتھ انصاف ضروری ہے انہوںنے مزید کہاکہ سب سے پہلے مسلم نوجوانوں کے اطراف واکناف میں کھڑے کی گئی شکوک وشبہات کی دیواروں کا انہدام لازمی ہے مسٹر غدر نے اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور بازیابی کو علاقہ تلنگانہ کے مسلمانوں کی حالت زار میں تبدیلی کے لئے موثرقراردیتے ہوئے کہاکہ چھ لاکھ ایکڑ سے زائد آندھرائی قائدین کے زیر قبضہ وقف اراضیات کومسلمانوں کے حوالے کرنے سے علاقہ تلنگانہ میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل ہی ثابت نہیں ہوگا بلکہ مسلمانوں کا موقف متحدہ ریاست آندھرا پردیش کے قیام سے قبل کا بھی ہوجائے گا۔مسٹر غدر نے مسلمانوں کو تلنگانہ میں آبادی کے تناسب سے تحفظات فراہم کرنے کی حمایت کی ۔مسٹرغدر نے کہاکہ مجوزہ ریاست تلنگانہ میں مسلم اور پسماندگی کا شکار دیگر طبقات کی آبادی کاتناسب 80فیصد سے زیادہ ہوجائے گا اگرمسلمان اور مذکورہ طبقات متحدہ ہوجائیں ایک نئی سیاسی صف بندی کے ذریعہ مسلمانوں کے بشمول پسماندگی کاشکار دیگر طبقات کے ساتھ جاری سیاسی استحصال کے خاتمہ کو بھی یقینی بنایا جاسکے گا۔