مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کرشمات کی جلوہ فرمائی ساری کائنات پرچھائی ہوئی ہے، صرف اسکا مشاہدہ کرنیوالی آنکھوں کی ضرورت ہے، اسکے کرشمات میں ایک اہم کرشمہ سمندر ہے جو زمین کے ایک بہت بڑے حصہ پر محیط ہے، سمندر میں رہنے بسنے والی ان گنت مخلوقات بھی قدرت خداوندی کا ایک عظیم شاہکار ہیں، سمندر کا طول وعرض، اسکی گہرائی، اسکی وسعت اور اس سمندر میں اٹھنے والی بڑی بڑی موجیں اور اسکا تلاطم، اس میں بننے والے بھنور وگرداب اور اس میں اٹھنے والی لہریں، یہ سب کے سب دامن دل کو قدرت خداوندی کے جلووں کا مشاہدہ کرنے کیلئے اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ چشم بینا جن کو نصیب ہوجائے وہ کرشمات خداوندی کے جلووں کامشاہدہ کرتے ہیں، غوروفکر اور تدبر کی قرآن پاک میں جابجا دعوت دی گئی ہے، اس تدبر میں معرفت کا ایک جہاں آباد ہے، سمندر میں چلنے والی کشتیاں یہ بھی قدرت خداوندی کا ایک اعجاز ہیں، پانی کے بڑے بڑے جہاز سمندر کے پشت پر اس کا سینہ چیرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، اربوں کھربوں ٹن کا وزن اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں، سمندر کی لہروں سے مقابلہ کرتے ہوئے گرداب سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ایک بڑی مسافت طئے کرکے منزل مقصود کو پہنچتے ہیں۔ اس حقیقت کو قرآن پاک میں کھولا گیا ہے، ارشاد باری ہے: ’’کیا تم اس میں غوروفکر نہیں کرتے کہ سمندر میں کشتیاں اللہ سبحانہ کے فضل سے چل رہی ہیں تاکہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے، یقینا اس میں ہرایک صبروشکر کرنے والے کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں‘‘(لقمان؍۳۱)۔
سمندر میں پانی کے جہازوں کا چلنا اللہ سبحانہ کے بے نہایت فضل و کرم کے بغیر کہاں ممکن، انسانوں کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنا کر اعلیٰ دماغی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، انسان ان کو بروئے کار لاکر سمندروں میں جہاز رانی کرتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت ان کی مددگار ہوتی ہے، ہوا اور پانی دونوں کو ایسا کچھ مناسب انداز سے قدرت نے جمع کردیا ہے کہ وہ کشتیوں کے توازن برقرار رکھنے میں ممدومعاون ہوتے ہیں، مشیت الٰہی کو کشتیوں کی حفاظت منظور نہ ہو تو پھر انکے غرق آب ہونے میں کچھ دیر نہیں لگتی، سمندر کی دنیا میں غوروفکر کرنے اور تحقیق و جستجو اختیار کرنے سے علم و معرفت کے بہت سے خزانے ہاتھ آسکتے ہیں، قدرت خداوندی کے رازہائے سربستہ منکشف ہوسکتے ہیں، اور اسی سمندر میں غوطہ زن ہوکر کئی ایک اس کی گہرائی میں پلنے والے قیمتی آبدار موتی پاسکتے ہیں، لیکن ان کرشمہائے قدرت تک رسائی انہیں کے حصہ میں آتی ہے جو صبر کے خوگر ہوں، غور و خوض، فکروتدبر جن کا مقصود حیات ہو، ذوق یقین نے رہ حیات میں پیش آنیوالی زنجیروں کو کاٹ کر آگے بڑھنے کی صلاحیت بخش دی ہو، انکے لئے کوئی چیز راہ کا روڑا نہیں بن سکتی، ترقی کی منزلیں طئے کرتے ہوئے وہ آگے ہی آگے نکلتے ہیں، علم و عمل اور تحقیق و جستجوکے وہ ایسے چراغ روشن کرتے ہیں جو تاریک دلوں کو نور و روشنی سے معمور کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں، علم و تحقیق کی ایک دنیا قرآن پاک کی مبارک آیات میں سموئی ہوئی ہے۔
نظام کائنات میں قدرت خداوندی کے ایسے کرشمے ہیں جو ایک عقلمند انسان کو بھی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن کردیتے ہیں، سمندر ہی کو لیجئے کہ اس کی وسعتیں، اسکی گہرائیاں اور اس کا مد وجزر سب کی نگاہوں کو خیرہ کیے ہوئے ہے، سب جانتے ہیں کہ اس کرۂ ارض کا تین چوتھائی حصہ پانی سے معمور ہے، خشکی کا حصہ صرف ایک چوتھائی ہے، اس سمندر میں اللہ سبحانہ نے دو طرح کی نہریں جاری کررکھی ہیں، ایک نہر تو بے نہایت میٹھی و شیریں اور دوسری نہر سخت کھاری اور کڑوی اور انکے درمیان اللہ سبحانہ نے ایک ایسی آڑ اور رکاوٹ قائم کردی ہے جو دونوں کو ملنے سے روکے رکھتی ہے۔ اس حقیقت کو حق سبحانہ و تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے: ’’وہی اللہ تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا دیا ہے، یہ بہت میٹھا اور شیریں ہے، دوسرا سخت کڑوا اور کھارا، اور اللہ نے ان دونوں کے درمیان اپنی قدرت سے ایک آڑ اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے‘‘(الفرقان؍۵۳)۔
یہ آیت پاک شان خداوندی کا مظہر ہے، اسکی قدرت کی جلوہ فرمائی ہی تو ہے جس نے کھارے اور میٹھے سمندروں کو ملنے سے روکے رکھی ہے۔ سائنسی دنیا تحقیق کے باوجود اس راز سربستہ سے پردہ اٹھانے سے عاجز و قاصر ہے، اسکی قدرت کے کرشمے زبان حال سے اس کی توحید ویکتائی اور اسکی قدرت و کمال کی گواہی دے رہے ہیں، سورۂ رحمن میں بھی اللہ سبحانہ نے اسکا بیان فرمایا ہے، ارشاد ہے: ’’اس نے دو سمندر جاری کردیئے ہیں جو ایک دوسرے سے مل کر چلتے ہیں لیکن ان دونوں میں ایک آڑ ہے کہ وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے‘‘(۱۹،۲۰)۔
یہاں دو سمندروں سے مراد بعض کی تحقیق میں وہ دونوں الگ الگ وجود رکھتے ہیں جو بحروبرمیں پائے جاتے ہیں، زمین کے سینہ پر کچھ تو میٹھے پانی کی نہریں اور دریا ہیں جو انسانوں کی تشنگی بجھاتے ہیں اور کھیتوں اور باغوں کو سیراب کرتے ہیں، اور کھارے پانی کی صورت میں تو سمندروں کا ذخیرہ ہے، دریاؤں اور نہروں کا پانی جو شیریں و میٹھا ہوتا ہے وہ نظام قدرت کے تحت کہیں جاکر سمندر کے پانی سے مل جاتا ہے تب بھی وہ دونوں اپنی انفرادیت باقی رکھتے ہیں، میٹھا پانی اپنی جگہ میٹھا رہتا ہے اور کھارا پانی اپنی جگہ کھارا۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ دریائے نیل جب بحرروم میں پہنچتا ہے تو ایک دراز مسافت تک دونوں الگ الگ اپنی راہ پر جاری رہتے ہیں، دیکھنے والی نگاہیں انکو تو ایک ہی دیکھتی ہیں لیکن دونوں کے درمیان ایسا فرق قدرت خداوند ی نے قائم رکھا ہے جو بہت لطیف ہے، باریک بیں نگاہیں بھی اس لطیف فرق کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ یہ بھی بعضوں نے لکھا ہے کہ میٹھے اور کھارے پانی کے ذخیرہ میں مدوجزر بھی ہوتا ہے، لہریں ایک دوسرے سے ٹکراتی بھی ہیں لیکن آپس میں ضم نہیں ہوتیں بلکہ وہ لہریں پلٹ کر اپنے اپنے مرکز میں واپس ہوجاتی ہیں، اور بعضوں کی تحقیق یہ ہے کہ کھارے سمندر کی وسیع وعریض دنیا میں کچھ وہ گوشے بھی ہیں جو میٹھے اور شیریں ہیں، یہ دونوں ذخیرے ہیں تو سمندر میں لیکن قدرت خداوندی نے ان دونوں کے درمیان ایسا حجاب قائم رکھا ہے جو انکو آپس میں ملنے نہیں دیتا انکی لہریں بھی اٹھتی ہیں اور ایک دوسرے سے ٹکراتی بھی ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی انفرادی شان پر باقی رہتی ہیں اور کچھ نے یہ کہا ہے کہ دریاؤں کا میٹھا پانی سمندر میں پہنچتا ہے، پھر ایک دراز مسافت تک اس دریا اور سمندر کا پانی ایک ساتھ آگے بڑھتا ہے لیکن قدرت خداوندی کا اعجاز یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوپاتے ، اور بعضوں کی تحقیق یہ ہے کہ کڑوے اور کھارے سمندر ہی کے جگر میں میٹھے پانی کے کچھ ایسے چشمے بھی ہیں جو بے نہایت شیریں ہیں، کھارا پانی اگر اوپر سے چل رہا ہو تو ٹھیک اس کے نیچے میٹھے پانی کی نہر بہہ رہی ہوتی ہے، انکے درمیان ایسی غیر محسوس اور لطیف آڑ قدرت خداوندی نے قائم کردی ہے جو اُن کو باہم ملنے سے روکے رکھتی ہے۔
ان مادی حقائق کیساتھ جو کہ خود بھی قدرت خداوندی کا ایک کرشمہ ہیں، بعض شارحین نے کھارے پانی سے مراد باطل اور میٹھے پانی سے مراد حق لیا ہے، گویا یہ دونوں بھی روحانی دنیا کے سمندر ہیں، اس دنیا میں حق و باطل ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ہمیشہ باطل کی حق کے ساتھ معرکہ آرائی جاری رہتی ہے، اسکے باوجود حق کبھی باطل میں ضم نہیں ہوتاچونکہ حق و باطل کے درمیان قدرت خداوندی نے ایک ایسی آڑ قائم کر رکھی ہے جو حق کو باطل سے ہمیشہ جدا رکھتی ہے، باطل پرستوں کی نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچ سکتیں جس کی وجہ وہ باطل پر اڑے رہتے ہیں، باطل کے اندھیارے اپنی ساری طاقت و توانائی اور سارا زوروزر خرچ کرکے بھی حق کے اُجالے پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتے، باطل کی سخت طوفانی ہوائیں بھی حق کی شمع فروزاں کو نہ کبھی گل کرسکی ہیں نہ آئندہ کبھی گل کرسکیں گی، روشنی روشنی ہے تاریکی سے اسکا کیا مقابلہ، باطل کے سخت ترین طوفانوں میں گھر کر بھی حق کا علم ہمیشہ بلند رہا ہے، باطل طاقتیں پرچم حق کو سرنگوں کرنے میں نہ کبھی کامیاب ہوسکی ہیں اور نہ ہی کبھی کامیاب ہوسکیں گی، حق حق ہے اور باطل باطل ہے، حق کا باطل سے کیا علاقہ۔