سمندری شہزادہ

ایسے میں اس کا پاؤں ایک نرم اور سفید جھاگ کی طرح کی چیز پر پڑا۔ وہ گھبرا گیا پھر جب اس نے قریب آ کر دیکھا تو وہ حیران رہ گیا۔ یہ ایک خوبصورت اور چھوٹا سا انسان نما جانور تھا، جس کے بازوؤں کی طرف دو سنہری پر تھے، شاید اسے سمندر میں اٹھنے والی اونچی لہروں نے کنارے پر پھینک دیا تھا۔ وہ بیہوش تھا۔ احمد نے اسے اٹھایا اور اپنی جھونپڑی میں لے آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ سمندری جانور زخمی تھا۔ احمد نے اس کو دوا لگائی اور پھر بارش کے رکنے کا انتظار کرنے لگا تاکہ اسے دوبارہ سمندر میں چھوڑ آئے۔ اتنے میں سمندری جانور کو ہوش آ گیا تھا۔

اب وہ پہلے کی نسبت بہتر محسوس کررہا تھا۔ وہ ہمدردی کی طلبگار نظروں سے احمد کودیکھنے لگا تھوڑی دیر گذرنے کے بعد وہ احمد کے ساتھ کھیلنے لگا۔ شام کو ایک آدمی احمد سے اس کے باپ کا پتہ پوچھنے وہاں آ گیا۔ اس نے سمندری جانور کو دیکھ لیا اور جاکر بادشاہ کو خبر کردی۔ بادشاہ نے سپاہیوں کو روانہ کردیا کہ اس سمندری جانور کو لے کر آؤ۔ چنانچہ سپاہی گئے اور انہوں نے سمندری خوبصورت جانور کو احمد سے چھین لیا۔ احمد بہت پریشان ہوا اور سوچنے لگا کہ سمندری جانور کے ماں باپ اپنے بچے کا انتظار کررہے ہوں گے لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔سپاہیوں نے سمندری جانور کو بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیا۔ بادشاہ نے اس خوبصورت جانور کو ایک مصنوعی جھیل میں چھوڑ دیا اور اس کی حفاظت کیلئے پہرے دار بٹھا دیئے۔ سمندری جانور وہاں ناخوش تھا،

اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ احمد بھی ہر وقت اسی کیلئے پریشان رہتا۔ اس نے اپنے باپ سے کہا کہ وہ بادشاہ سے بات کریںلیکن بادشاہ نے ان کی کوئی بات نہ سنی۔ احمد سمندری جانور کیلئے کچھ کرنا چاہتا تھا مگر وہ بے بس تھا۔ چند ہی دن بعد سمندرمیں چھوٹے چھوٹے طوفان آنا شروع ہوگئے، جن کی وجہ سے مچھیروں کا بستی سے نکلنا مشکل ہوگیا اور وہ بھوک پیاس کا شکار ہوگئے۔ بادشاہ نے شاہی نجومی کو بلوا کر اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ اصل میں یہ سب اس سمندری جانور کی وجہ سے ہورہا ہے جوکہ سمندری راجہ کی اکلوتی اولاد ہے اور اسے نہ لوٹانے پر ایک بہت بڑا طوفان برپا کردے گا۔ یہ سن کر بادشاہ فکر مند ہوگیا۔ بستی کے تمام افراد باشاہ کے سامنے جمع ہوگئے اور سبھی پریشانی کے عالم میں بادشاہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔

بادشاہ نے لوگوں کی پریشانی کا عالم دیکھ کر اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ سمندری شہزادے کو واپس سمندر پر چھوڑ آئیں۔ بستی کے لوگ پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ احمد اپنے باپ کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔ بادشاہ کے سپاہیوں نے خوبصورت سمندری شہزادے کو آزاد کردیا۔ آہستہ آہستہ بستی کے سبھی لوگ اپنی اپنی جھونپڑیوں میں چلے گئے۔ اب احمد وہاں اکیلا کھڑا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اس کا پیارا دوست سمندری شہزادہ اسے ملنے ضرور آئے گا اور پھر ایسا ہی ہوا کہ تھوڑی دیر بعد سمندری شہزادہ اپنے باپ کے ہمراہ وہاں آگیا۔ ’’خوبصورت سمندری شہزادہ‘‘ احمد کے ارد گرد خوشی سے گھومنے لگا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر سمندری راجہ بہت خوش ہوا اور اس نے دونوں کو روزانہ مل کر کھیلنے کی اجازت دے دی۔