سماج میں قاضیوں کا اہم رول ، طلاق و خلع میں عجلت نہ کرنے کا مشورہ : محمد سلیم

کونسلنگ کے ذریعہ خاندانوں کو ٹوٹنے سے بچانے پر زور ، وقف بورڈ کا قاضیوں کے ساتھ مشاورتی اجلاس
حیدرآباد ۔ 6۔ ستمبر (سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ کی جانب سے قاضیوں کا مشاورتی اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں مسلمانوں میں طلاق اور خلع کے واقعات کی روک تھام اور نکاح کے موقع پر زائد فیس کی وصولی جیسے امور پر غور کیا گیا۔ انجمن قضاۃ سے تعلق رکھنے والے شہر اور اضلاع کے قاضیوں نے اس اجلاس میں شرکت کی جبکہ شہر کی دو اہم تنظیموں کے نمائندے اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ ان کا استدلال تھا کہ حکومت اور وقف بورڈ کو قضاۃ کے امور میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے ۔ صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم جو کل تک قاضیوں کے خلاف کارروائی کی بات کر رہے تھے ، آج انہوں نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے وضاحت کردی کہ مشاورت کے سلسلہ میں یہ اجلاس طلب کیا گیا ہے اور وقف بورڈ قضاۃ کے امور میں مداخلت میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ وقف بورڈ کے رکن مولانا اکبر نظام الدین صابری ، چیف اگزیکیٹیو آفیسر ایم اے منان فاروقی اور ناظر قضاۃ قاضی اکرام اللہ اجلاس میں شریک تھے۔ صدرنشین وقف بورڈ نے قاضیوں کو مشورہ دیا کہ وہ طلاق اور خلع جیسے امور میں عجلت سے کام نہ لیں بلکہ کونسلنگ کے ذریعہ خاندانوں کو ٹوٹنے سے بچائیں۔ انہوں نے کہا کہ سماج میں قاضیوں کا اہم رول ہوتا ہے اور وہ معاشرہ کو بدلنے میں اپنا حصہ ادا کرسکتے ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ طلاق اور خلع کے واقعات کے سبب مسلمانوں کی بدنامی ہورہی ہے۔ صدرنشین وقف بورڈ نے قاضیوں کو مشورہ دیا کہ وہ شریعت کے مطابق پہلے کونسلنگ کریں تاکہ اختلافات کی شدت میں کمی آئے۔ انہوں نے نکاح کے موقع پر زائد فیس کی وصولی کی شکایت کا حوالہ دیا اور کہا کہ اگر عوام اپنی مرضی سے زائد رقم ادا کر رہے ہیں تو وہ حاصل کی جاسکتی ہیں۔ قاضیوں کے نمائندے نے بتایا کہ ہائیکورٹ کے ڈیویژن بنچ نے اپنے فیصلہ میں واضح کردیا ہے کہ حکومت اور وقف بورڈ کو قضاۃ کے امور میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ فیس کا تعین بھی وقف بورڈ نہیں کرسکتے۔ قاضیوں کے مختلف انجمنوں نے مشترکہ طور پر 2000 روپئے فیس متعین کی ہے جس میں لڑکے والوں سے 1200 اور لڑکی والوں سے 800 روپئے وصول کئے جاتے ہیں۔ صدرنشین وقف بورڈ نے قاضیوں کو مشورہ دیا کہ وہ فیس کے سلسلہ میں لڑکی والوں سے اصرار نہ کریں کیونکہ اکثر لڑکی والے غریب ہوتے ہیں۔ قاضیوں نے بتایا کہ وہ اضلاع میں موروثی قضاۃ کے سبب اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ اس سے انہیں کوئی خاطر خواہ آمدنی نہیں ہے۔ ایک سال میں بمشکل 50 شادیاں ہوتی ہیں اور وہ غریب خاندانوں کے نکاح مفت پڑھاتے ہیں ۔ حالانکہ اسی پر ان کا روزگار اور انحصار ہے۔ شہری علاقوں میں قاضیوں کو زائد آمدنی ہوتی ہے۔ صدرنشین وقف بورڈ نے کہا کہ عرب شہریوں سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کے سلسلہ میں قاضیوں کو اپنے طور پر رہنمایانہ اصول قائم کرنے چاہئیں۔ مولانا اکبر نظام الدین صابری نے بتایا کہ قاضیوں کے تحت انعام اراضیات وقف بورڈ کے تحت آتی ہے ، لہذا قضاۃ کا وقف سے تعلق ہے۔ صدرنشین نے وضاحت کی کہ یہ اجلاس احکامات کی اجرائی یا قاضیوں کو پابند کرنے کیلئے طلب نہیں کیا گیا بلکہ خالص مشاورتی نوعیت کا اجلاس ہے تاکہ مسلم معاشرہ میں طلاق اور خلع کی کثرت کو کم کیا جاسکے۔