مزاجِ اہلِ گلستاں بدل نہیں سکتا
مگر بہار کے تیور بدل تو سکتے ہیں
سماج میں بڑھتا اضطراب
ملک میںان دنوں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ ہر مقام پر کسی نہ کسی مسئلہ پر سماج کو پرسکون ماحول فراہم نہیں ہو رہا ہے ۔ سماج کے کسی نہ کسی طبقہ کو کسی نہ کسی وجہ سے نشانہ بنانے کی فرقہ پرستوں کی کوششیں مسلسل جاری ہیں اورا س کی وجہ سے نراج کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے ۔ کہیں مسلمانوں کو گئو رکھشا کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا ہے ‘ کہیں انہیں تین طلاق کے مسئلہ پر احساس کمتری کا نشانہ بنانے کی مہم چل رہی ہے جسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے تو کہیں ایسے مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے جو نزاعی ہیں۔ کہیں دلتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیںاعلی ذات والوں کے غلبہ کو یقینی بنانے کیلئے نت نئی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ اس صورتحال سے ملک کا چین اور امن متاثر ہو رہا ہے ۔ مہاراشٹرا میں گذشتہ دنوں پیش آئے واقعات اس کی مثال ہیں۔ مہاراشٹرا میں حالات کے دگرگوں ہونے کی وجوہات جو رہی ہیں وہ سب پر عیاں ہیں لیکن ایسے حالات پیدا کرنے کے پس پردہ جو ذہنیت کارفرما ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایسی ذہنیت ہے جو صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ نہیں بنا رہی ہے بلکہ یہ اعلی ذات اور دلتوں کے مابین فرق کو بھی مزید بڑھاوا دینے میں یقین رکھتی ہے ۔ یہ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے سرگرم ہے ۔ یہ ایسی ذہنیت ہے جو ہندوستان میں اپنا غلبہ چاہتی ہے اور چاہتی ہے کہ ہر کوئی اس سوچ کا غلام بن کر زندگی گذارے ۔ مسلمانوں کیلئے جہاں اس ملک میں عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور انہیں عملا دوسرے درجہ کا شہری اور اکثریت کے رحم و کرم پر رہنے والی آبادی بنانے کی منظم اور منصوبہ بند کوششیں ہو رہی ہیں وہیں اس بات کو بھی عوام کے ذہنوں میں بٹھایا جا رہا ہے کہ دلتوں کیلئے بھی اس ملک میں کوئی مساوی حقوق نہیں ہیں۔ سماج میں چھوت چھات کو ختم کرنے کیلئے جو تحریکیں آزادی کے بعد سے چل رہی تھیں ان تحریکوں کا اثر آج بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے اور دلتوں کو اب بھی محض سیاسی فائدہ اور مسلم دشمنی کیلئے استعمال کرنے کے بعد دوبارہ حاشیہ پر کردینے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ مہاراشٹرا کے واقعات سے یہی کچھ سمجھنے کو ملتا ہے کہ سماج کا چاہے کوئی طبقہ کو یا کوئی برادری کو سب کو ایک مخصوص فکر اور نظریہ رکھنے والوں کے رحم و کرم پر ہی زندہ رہنا ہوگا ۔
ہندوستان کا ماحول ایسا پراگندہ کردیا گیا ہے کہ یہاں انسان کی سوچ خود متعصب ہوگئی ہے اور لوگ ایک دوسرے کے تعلق سے دلوں میں اندیشے اور نفرت کو ہوا دینے لگے ہیں۔ یہ سب کچھ ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتا ۔ ہندوستان کی مثال ایسی ہے جہاںکثرت میں وحدت ہے اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اپنی خوشیاں اور دکھ سب بانٹتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عیدوں اور تہواروں میں حصہ لیتے ہیں اور شرکت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے غم بانٹتے ہیں۔ یہاں ہر مذہب کے ماننے والے اپنے مذہب اور عقیدہ پر عمل کرتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی زبان بولتا ہے ۔ ہر کوئی اپنے رسوم و رواج پر عمل کرتا ہے ۔ کسی کی رنگ و نسل الگ ہے تو کسی کا کلچر مختلف ہے ۔ کسی کا طرز زندگی الگ ہے تو کسی کی ترجیحات جداگانہ ہوتی ہیں۔ ان سب کے باوجود لوگ ایک دھاگے میں بندھے ہیں اور یہ ہندوستان کی خوبصورتی ہے ۔ یہ دھاگہ ہندوستانیت کا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج محض چند مٹھی بھر شرپسندوں اور مفادات حاصلہ کی وجہ سے اس سوچ کا نقصان ہو رہا ہے ۔ محض ایک مخصوص نظریہ اور فکر کو ہر کسی پر مسلط کرنے کی کوششیں ہیں جو ملک کے ماحول کو مزید پراگندہ کر رہی ہیں۔ سماج کے مختلف طبقات کے مابین نفرتوں کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ اس سے سماج میں قربتیں بڑھنے کی بجائے خلیج میں اضافہ ہورہا ہے ۔ لوگ ایک دوسرے سے قریب آنے کی بجائے ایک دوسرے سے متعلق اندیشوں کا شکار ہیں اور دلوںمیں نفرتیں اورکدورتیں فروغ دی جا رہی ہیں۔ اس سے سب سے زیادہ نقصان ملک اور ملک کے عوام کا ہو رہا ہے ۔
زندگی کا شائد ہی کوئی شعبہ ایسا ہوگا جہاں ایک مخصوص سوچ و فکر کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہو۔ یہ فیصلے اسی سوچ کے ذریعہ ہو رہے ہیں کہ کسی کو کیا کھانا چاہئے ۔ یہی سوچ فیصلہ کرنے لگی ہے کہ کس کی شادی کس سے ہونی چاہئے ۔ یہ فیصلے اسی سوچ کے تابع ہوگئے ہیں کہ کس کو کس طرح سے طلاق دینی چاہئے ۔ یہ بھی اسی سوچ کے حامل گوشے طئے کرنے لگے ہیں کہ سماج میں کس طبقہ کو سبقت حاصل ہے اور کس کو اعلی ذات والوں کے رحم و کرم پر گذارہ کرنا پڑے گا ۔ تعلیمی اداروں میں الگ زہر گھولا جا رہا ہے ۔ نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کی بجائے نفرتوں کا اسیر کیا جا رہا ہے ۔ سماج کو جوڑنے کی بجائے اس کو بکھیرنے والے کاموں پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ دور میں حالات کو سمجھا جائے اور ایسی کوششوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جائے ۔ ایسا کرنا ملک و قوم کی حقیقی فکر رکھنے والے ہر گوشے کی ذمہ داری بنتی ہے ۔