کل تک جو بات کرتے تھے وہ اتحاد کی
باہم ہیں خود ہی دست و گریباں تو کیا کہیں
سماجوادی پارٹی میں اختلافات
اترپردیش میں برسر اقتدار سماجوادی پارٹی میں اختلافات نے شدت اختیار کرلی ہے اور یہ صورتحال بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ اختلافات اب خاندان کا حصہ بن گئے ہیں اور پارٹی سربراہ ملائم سنگھ یادو اور چیف منسٹر اکھیلیش سنگھ یادو میں بھی عملا بالاد ستی کی جنگ شروع ہوگئی ہے ۔ باپ بیٹے کے مابین اختلافات ہندوستانی سیاست میں شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ باپ اپنے بیٹوں کو سیاست میں آگے بڑھانے کیلئے ہر کسی سے اختلافات مول لیتا ہے تاہم سماجوادی پارٹی میں باپ ملائم سنگھ یادو بیٹے اکھیلیش سنگھ یادو کے پر کترنے پر بھی تیار ہوگئے ہیں۔ وہ اپنے بھائی شیوپال سنگھ یادو کیلئے ایسا کر رہے ہیں ۔ دونوں کے مابین اختلافات کیو جہ شیوپال سنگھ یادو بنے ہیں۔ ملائم سنگھ یادو نے اکھیلیش سنگھ یادو کو پارٹی کی اترپردیش یونٹ کے صدر کی حیثیت سے برخواست کردیا اور ان کی بجائے شیوپال سنگھ یادو کو ریاستی صدر نامزد کردیا ۔ اس کے چند گھنٹوں کے اندر ملائم سنگھ یادو کی کارروائی کے جواب میں چیف منسٹر اکھیلیش نے اپنے چچا شیوپال سنگھ یادو سے ریاستی کابینہ میں اہم قلمدان واپس حاصل کرلئے ۔ انہیں ایک معمولی قلمدان کا ذمہ ہی دیا گیا ہے ۔ شیوپال سنگھ یادو اپنے بھتیجے کی اس کارروائی سے خوش نہیں ہیں اور اس کیلئے انہوں نے ایک بار پھر اپنے بڑے بھائی ملائم سنگھ یادو کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ایسا تاثر مل رہا ہے کہ ملائم اپنے بیٹے کے مقابلہ میں بھائی کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ سماجوادی پارٹی کی یہ صورتحال اس کیلئے داخلی مسئلہ تک محدود نہیں رہ گئی ہے اور اس سے پارٹی کے انتخابی امکانات متاثر ہونے کے اندیشے مستحکم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب یہ اختلافات عوامی سطح پر آگئے ہیں اور لازمی طور پر اس کے منفی اثرات پارٹی کے انتخابی امکانات پر مرتب ہونے والے ہیں۔ پارٹی کے ایک اور سینئر لیڈر و ملائم کے رشتہ دار رام گوپال یادو ایسا لگتا ہے کہ چیف منسٹر اکھیلیش کی تائید میں ہیں اور شائد اسی لئے انہوں نے ان کی پارٹی ریاستی یونٹ کی صدارت سے علیحدگی کو پارٹی قیادت کی غلطی قرار دیا ہے ۔ وہ پارٹی میں ملائم اور اکھیلیش اختلافات کو ختم کروانے کیلئے مصالحتی ذمہ داریاں بھی سنبھال چکے ہیں۔
ایسے وقت میں جبکہ اترپردیش میں آئندہ سال انتخابات ہونے والے ہیں اور یہاں ایس پی کی اپوزیشن جماعتیں اسے اقتدار سے بیدخل کرنے کیلئے منصوبے بنا رہی ہیں سماجوادی پارٹی میں یہ اختلافات اس کے اقتدار کیلئے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ ویسے بھی سماجوادی پارٹی کیلئے ریاست میں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ اپوزیشن نے حکومت کے خلاف زبردست مہم شروع کررکھی ہے ۔ ابھی سے رائے دہندوں کو رجھانے اور راغب کرنے کا عمل تیز ہوگیا ہے ۔ حکومت کی ناکامیوں کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اجاگر کیا جا رہا ہے ۔ اپنے منصوبوں سے انہیں واقف کروایا جا رہا ہے ۔ ہر ہر محاذ پر حکومت کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ حکومت کے تعلق سے عوام میں برہمی اور ناراضگی کی لہر پیدا کردی گئی ہے ۔ اس کو مزید مستحکم کرنے کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں پارٹی میں داخلی سطح پر اختلافات پارٹی کیلئے اچھے نہیں کہے جاسکتے اور اس کے پارٹی کیڈر پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس سے پارٹی کیڈر کے حوصلے پست ہوسکتے ہیں۔ اس سے اپوزیشن کی صفوں میں نیا جوش و خروش پیدا ہوسکتا ہے ۔ اس سے مخالفین کے کیڈر کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں۔ جو صورتحال خاندانی سطح پر حل کئے جانے کی ضرورت تھی اسے سیاسی سمجھ بوجھ کے فقدان کی وجہ سے عوامی حلقوں میں منتقل کردیا گیا ہے اور ایسا ہونا اترپردیش میں برسر اقتدار پارٹی کے آئندہ انتخابات کے امکانات کیلئے قطعی خوش آئند نہیں کہا جاسکتا ۔
ریاست میں پہلے ہی بے طرح مسائل ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کے مسئلہ پر اکھیلیش کو مسلسل تنقیدوںکا نشانہ بننا پڑ رہا ہے ۔ عوامی فلاح و بہبود کی اسکیمات عملا ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ اکھیلیش سے ریاست کی حالت کو بدلنے کی جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوسکی ہیں اور ان مسائل پر توجہ دینے کی بجائے داخلی سیاست اور داخلی اختلافات کا ابھرنا سماجوادی پارٹی کیلئے اچھی صورتحال نہیں ہے ۔ ملائم سنگھ یادو اور پارٹی کے دیگر ذمہ داروں کو اس صورتحال کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اگر انتخابات میں عوامی برہمی سے بچنا ہے ۔ اختلافات ہر سیاسی جماعت میں ہوتے ہیں لیکن یہ مختلف قائدین میں ہوتے ہیں سماجوادی پارٹی میں جو اختلافات ہوئے ہیں وہ خاندان کے ارکان میں ہوئے ہیں اور یہی بات عوام کو پارٹی سے دور کرسکتی ہے ۔