قاری محمد مبشر احمد رضوی القادری
سلطان الاولیاء حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی المعروف ’’غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کی ولادت باسعادت یکم رمضان المبارک بروز جمعہ ۴۷۰ھ قصبہ جیلان میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ ام الخیر بیان فرماتی ہیں کہ ولادت کے ساتھ ہی احکامِ شریعت کا اس قدر احترام تھا کہ ماہ رمضان المبارک میں دن بھر دودھ نہیں پیتے تھے۔ ایک مرتبہ ابر کے باعث ۲۹؍ شعبان کو چاند نظر نہیں آیا، لوگ فکر مند تھے، لیکن اس مادرزاد ولی نے صبح کو دودھ نہیں پیا۔ بالآخر تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ آج یکم رمضان المبارک ہے۔ پورے عہد رضاعت میں آپ کا یہ حال تھا کہ سال کے دیگر مہینوں میں آپ دودھ پیتے، لیکن جونہی رمضان المبارک شروع ہوتا، طلوع فجر سے غروب آفتاب تک ہرگز دودھ نہ پیتے۔
حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ اپنے لڑکپن سے متعلق خود ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’عمر کے ابتدائی دَور میں جب کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا تو غیب سے آواز آتی کہ ’’اے عبد القادر! لہو و لعب سے دُور رہو‘‘۔ یہ آواز سن کر میں اپنی والدہ کی آغوشِ محبت میں چھپ جاتا‘‘۔ مشہور روایت ہے کہ جب آپ کی عمر شریف چار سال ہوئی تو اسلامی رواج کے مطابق والد محترم حضرت شیخ ابوصالح رحمۃ اللہ علیہ تسمیہ خوانی اور مکتب میں داخلہ کی غرض سے استاد کے پاس لے گئے۔ چنانچہ آپ استاد محترم کے سامنے ادب سے دو زانوں بیٹھ گئے۔ استاد نے کہا: ’’پڑھو بیٹے! بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم‘‘ تو آپ نے بسم اللہ شریف کے بعد مسلسل سترہ (۱۷) پارے سنا دیئے۔ استاد محترم نے حیرت کے ساتھ دریافت کیا: ’’یہ قرآن کریم تم نے کب پڑھا اور کیسے یاد کیا؟‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’میری والدہ ماجدہ سترہ پاروں کی حافظہ ہیں، جن کا وہ اکثر ورد کیا کرتی تھیں۔ جب میں شکمِ مادر میں تھا تو یہ سترہ پارے سنتے سنتے مجھے یاد ہو گئے‘‘۔ آپ نے اپنے وطن جیلان میں باضابطہ قرآن مجید ختم فرمایا اور چند دینی کتابیں بھی زیر مطالعہ رہیں۔
والد گرامی کا سایہ اُٹھ جانے کے بعد گھر کے دیگر امور کو سنبھالنا پڑا، بعد ازاں حکم الہی کے تحت دنیاوی امور کو آپ نے خیرباد کردیا اور اپنی والدہ ماجدہ سے تحصیل علم کی اجازت لے کر ۴۸۸ھ میں ایک قافلہ کے ہمراہ بغداد روانہ ہوئے۔ اس زمانے میں بغداد عالمِ اسلام کا مرکز اور صاحبانِ فضل و کمال کا بحر ذخار تھا۔ آپ سیدھے حضرت شیخ حماد بن مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں تشریف لے گئے۔ حضرت حماد نے آپ کا خیرمقدم کیا اور مصافحہ و معانقہ فرماکر خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے فرمایا: ’’فرزند گرامی! فقر و تصوف کا خزانہ آج میرے پاس ہے، کل یہ دولت تمہارے ہاتھوں میں سونپی جائے گی، لہذا اسے احتیاط سے خرچ کرنا۔ اے سرزمین عراق! تجھ پر ایک مقدس ہستی کا آنا مبارک ہو، اب تجھ پر رحمت کے ابر سایہ فگن ہوں گے اور علم و عرفان گھٹا بن کر برسیں گے۔ اب تیری سرزمین سے نفس و شیطان کی شرانگیزی اور سرکشی کا تختہ اُلٹ جائے گا اور رحمتِ باری کا نزول ہوگا۔ مرحبا، مرحبا اے سعید و صالح فرزند مرحبا!‘‘۔
حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خصوصی نوازشات اور علمی فیوض و برکات سے نوازا اور ارشاد فرمایا کہ ’’علوم دینیہ کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے۔ علم ہی سے امراض نفسانی کی صحت ہوتی ہے اور علم ہی کی روشنی سے تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ ملتی ہے‘‘۔ اسی ہدایت کے مطابق حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے سترہ جلیل القدر اساتذۂ کرام سے اکتساب فیض کیا اور اپنی زندگی میں ۴۹ کتابیں لکھیں۔
حضرت قاضی ابوسعید محزومی رحمۃ اللہ علیہ کا فقہی مذہب حنبلی تھا۔ چوں کہ سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے علم کلام، علم فقہ وغیرہ حضرت ابوسعید محزومی سے پڑھا ہے، لہذا بعض حضرات کا خیال ہے کہ غالباً اسی وجہ سے آپ نے حنبلی مسلک اختیار فرمایا۔
حضرت غوث اعظم کی کثرت عبادت کا اندازہ ان روایات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چالیس سال تک پابندی کے ساتھ آپ نے عشاء کے وضوء سے فجر کی نماز ادا فرمائی، پندرہ برس تک معمول کے مطابق نماز عشاء کے بعد مکمل قرآن مجید ختم فرمایا اور پچیس برس تک جنگلوں میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہے، یہاں تک کہ روحانیت کے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہو گئے۔ آپ کی مجلس وعظ میں ساٹھ تا ستر ہزار افراد شریک ہوکر علمی حقائق اور اسرارِ معرفت سے استفادہ کرتے، جب کہ آپ کے ارشادات عالیہ کو قلم بند کرنے کے لئے چار سو اصحاب متعین تھے۔ بعد ازاں ان ارشادات مبارکہ کو ’’خطباتِ غوث اعظم‘‘ سے موسوم کیا گیا۔
حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے بلند پایہ ہمت اور خداداد صلاحیتوں سے انتہائی بے خوفی و بیباکی کے ساتھ جرأت مندانہ اقدام کرتے ہوئے تمام فرقۂ باطلہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بدمذہبوں کی سرکوبی فرماکر فتنوں کے دروازوں کو بند کردیا، نیز اللہ تعالیٰ کے بندوں کو حق آشنا اور بزرگانِ دین کا سچا عقیدت مند بنادیا۔