محمد یعقوب علی خاں
بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدم علیہ السلام کو رب تعالیٰ نے پیدا فرمایا تو فرمایا ’’دیکھو! وہ فرشتوں کی جماعت بیٹھی ہے، وہاں جاؤ اور انھیں سلام کرو اور ان کے جواب پر غور کرو، وہ تمہاری اولاد کا سلام و جواب ہوگا‘‘۔ حضرت آدم علیہ السلام وہاں پہنچے اور کہا ’’السلام علیکم‘‘۔ وہ سب بولے ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہٗ‘‘۔
علماء فرماتے ہیں کہ سلام ایک شخص کو کیا جاتا ہے، مگر ’’علیکم‘‘ جمع کی ضمیر استعمال کرکے اس شخص کے ساتھ موجود فرشتوں یعنی کراماً کاتبین اور محافظین کو بھی شامل کرلیا جاتا ہے، جس کا جواب وہ بھی دیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تم کو ایسی بات نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو تمہارے درمیان محبت بڑھے اور وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو رواج دو‘‘۔ (مسلم)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کلام سے پہلے سلام کرنا چاہئے‘‘۔ (ترمذی)
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سلام میں پہل کرنے والا غرور و تکبر سے پاک ہے‘‘۔ (بیہقی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ’’جب کوئی تم میں سے کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، پھر اگر بیٹھنے کی ضرورت ہو تو بیٹھ جائے اور جب چلنے لگے تو دوبارہ سلام کرے‘‘۔ (ترمذی)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم گھر میں داخل ہوؤ تو گھر والوں کو سلام کرو، کیونکہ تمہارا سلام تمہارے لئے اور تمہارے گھر والوں کے لئے برکت کا سبب ہوگا‘‘۔ (ترمذی)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تمہاری ملاقات بدمذہبوں سے ہو تو انھیں سلام نہ کرو‘‘۔ (ابن ماجہ)
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص (سلام کرنے میں) غیروں کی مشابہت اختیار کرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ یہود و نصاریٰ کی مشابہت نہ اختیار کرو، یہودیوں کا سلام اُنگلیوں کے اشارہ سے ہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلیوں کے اشارہ سے ہے‘‘۔ (ترمذی و مشکوۃ)
سلام کرنا سنت کفایہ ہے، اگر جماعت میں سے کسی ایک شخص نے بھی سلام کرلیا تو سب کی طرف سے ادا ہو گیا اور اگر کسی نے نہیں کیا تو سب سنت کے تارک ہوئے۔ اسی طرح سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے، اگر جماعت میں سے کسی ایک شخص نے بھی جواب دے دیا تو سب کا فرض ادا ہو گیا اور اگر کسی نے جواب نہیں دیا تو سب گنہگار ہوئے۔ یہی مسئلہ چھینک کے جواب کا بھی ہے کہ جماعت میں سے کسی ایک نے بھی جواب دے دیا تو سب کی طرف سے سنت ادا ہو گئی۔ خیال رہے کہ سلام کرنا سنت ہے اور جواب دینا واجب ہے، مگر زیادہ ثواب سلام کرنے والے کے لئے ہے، یعنی سلام کرنے والے کو ۹۰ نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔
آدابِ سلام یہ ہے کہ سوار پیدل کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، تھوڑی جماعت بڑی جماعت کو اور چھوٹی عمر والا بڑی عمر والے کو سلام کرے۔ اسی طرح دو گزرنے والوں کی ملاقات ہو تو سلام سے ابتدا کرنے والا زیادہ ثواب پائے گا، یعنی بوقت ملاقات پہلے سلام عرض کرے اور اس کے بعد کلام کرے۔ اگر چھوٹے بچوں کے پاس سے گزرے تو انھیں بھی سلام کرنا چاہئے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔
جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے بیوی بچوں کو سلام کرے کہ اس سے اتفاق و اتحاد بڑھتا ہے اور رزق میں برکت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر خالی گھر میں بھی داخل ہو، تب بھی سلام کرے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ خالی گھر میں داخل ہو تو ’’السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہٗ‘‘ کہے۔
خط میں لکھا ہوا سلام کا جواب دینا بھی واجب ہے، جس کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ زبان سے جواب دے اور دوسرے یہ کہ سلام کا جواب لکھ کر بھیج دے۔ (بہار شریعت)
کسی نے خط میں لکھا کہ فلاں شخص کو سلام کہہ دینا تو مکتوب الیہ پر سلام کا پہنچانا واجب نہیں ہے، اگر پہنچائے گا تو ثواب پائے گا۔ اگر کسی نے کہا کہ فلاں کو میرا سلام کہہ دینا اور مخاطب نے وعدہ کرلیا تو اس پر سلام کا پہنچانا واجب ہے، اگر نہیں پہنچائے گا تو گنہگار ہوگا۔ (فتاویٰ عالمگیری)