حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس بندہ نے دنیا میں (زائد از ضرورت و حاجت، دنیاوی مال و جاہ سے) زہد یعنی بے رغبتی اختیار کی، اللہ تعالی نے اس کے دل میں حکمت یعنی معرفت و یقین کی دولت پیدا کی۔ اس کی زبان کو اس (حکمت) کے ساتھ گویا کیا اور اس کو دنیا کے عیوب (جیسے کثرت رنج و غم، قلت غنا، خست شرکاء، سرعت فنا اور ذکر الہی سے دل کی غفلت وغیرہ کو یقین کی آنکھوں سے) دیکھنے والا کیا۔ نیز اس دنیا کی بیماری (یعنی دنیاوی محبت کی علت و سبب) اور (علم و عمل، صبر و قناعت اور دنیا سے اجتناب و بے رغبتی اختیار کرنے اور تقدیر الہی پر راضی پر راضی رہنے کی توفیق عطا کرکے) اس بیماری کا علاج بھی اس کو دکھایا اور (اس کے دنیا سے اعراض کرنے اور عقبیٰ کی طرف متوجہ رہنے کے سبب) حق تعالی نے اس کو دنیا (کی آفات و بلیات) سے سلامتی کے ساتھ دارالسلام میں پہنچا دیا‘‘۔ (بیہقی)
’’دارالسلام‘‘ سے مراد ’’جنت‘‘ ہے اور اس حدیث شریف میں اس طرف اشارہ ہے کہ بکمال و تمام حقیقی سلامتی بس دار آخرت اور جنت ہی میں حاصل ہوگی۔ منقول ہے کہ ایک عارف درویش سے لوگوں نے پوچھا کہ ’’کہئے، آپ کا کیا حال ہے؟‘‘۔ انھوں نے جواب دیا کہ ’’خدا نے چاہا تو سلامتی ہی سلامتی ہے، بشرطیکہ جنت میں پہنچ جاؤں‘‘۔