سفر معراج کے تین حصے اور فلاسفہ کا جواب

علامہ سید احمد سعید کاظمی

معراج کی شب حضور علیہ الصلوۃ والسلام مسجد اقصی سے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور ساتوں آسمانوں سے گزرکر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں سے آگے اللہ تعالی کے بڑے بڑے فرشتے بھی نہیں جاسکتے۔ آسمان اول سے لے کر سدرہ تک تمام روحانی اور نورانی افراد یعنی ملائکہ کرام پیچھے رہ گئے، حتی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی وہاں سے آگے نہ بڑھ سکے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب کو پیچھے چھوڑکر سدرۃ المنتہیٰ سے آگے تشریف لے گئے اور آپﷺ کا سدرہ سے آگے تشریف لے جانا، آپﷺ کی حقیقت ملکیہ اور آپﷺ کی نورانیت و روحانیت کا چمکتا ہوا معراج تھا۔ اس حیثیت سے کہ عالم ملائکہ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی نورانیت و روحانیت درحقیقت ملکیت کی معراج ہے۔

پھر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند و مکان کی قیود سا بالاتر ہوکر فوق العرش پہنچ کر بارگاہ حق تعالی جل مجدہٗ میں حاضر ہونا اور ’’ثم دنیٰ فتدلی فکان قاب قوسین او ادنیٰ‘‘ کے مراتب عالیہ پر فائز ہونا اور سر اقدس کی آنکھوں سے بے حجاب اللہ تعالی کو دیکھنا حقیقت محمدیہ اور صورت حقیہ کی معراج ہے۔ اس حیثیت سے کہ وہ عرش عظیم جو تجلیات حسن حقیقی کی بلند ترین جلوہ گاہ ہے، اس طرح پیچھے رہ گیا، جس طرح مسجد اقصی میں کمال انسانیت رکھنے والے انبیاء علیہم السلام پیچھے رہ گئے اور سدرۃ المنتہی پر کمال ملکیت و نورانیت رکھنے والے ملائکہ مقربین پیچھے رہ گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے آگے تشریف لے گئے، بالکل اسی طرح حسن الوہیت کی بلند ترین جلوہ گاہ عرش عظیم بھی پیچھے رہ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم زمان و مکان اور تحت و فوق کو پیچھے چھوڑکر ایسے عالم میں، جسے عالم کہنا درحقیقت مجاز ہے۔ اپنی حقیقت محمدیہ اور صورت حقیہ کے ساتھ اس عرش عظیم کی بلندی سے بلند ہوکر اس ذات والا صفات کے ساتھ واصل ہوئے، جس کے حسن ذات و صفات کا مظہر اتم تھے۔ اس کا کلام سنا اور اس کا جمال دیکھا، نہ ان کی بات سننے اور انھیں دیکھنے والا رب کے سوا کوئی اور نہ تھا۔ نہ رب کا کلام سننے والا اور اسے دیکھنے والا ان کے سوا کوئی دوسرا تھا، یعنی حضور علیہ الصلوۃ والسلام رب کے سمیع و بصیر تھے اور رب کریم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سمیع و بصیر تھا۔

معلوم ہوا کہ سفر معراج کے تین حصے صرف اس لئے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین صفتیں ہیں اور ہر صفت کی معراج کا مستقل ذکر ہے۔ ہمارے اس بیان سے کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بشریت کو جب معراج ہوئی تھی تو اس وقت روح مبارک نہ تھی، یا جس وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی حقیقت ملکیہ کی معراج آسمانوں پر ہوئی تو اس وقت جسمانیت مطہرہ ساتھ نہ تھی۔ اسی طرح جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مظہریت مطہرہ کو معراج ہوئی تو روح اقدس یا جسم مبارک اس وقت موجود نہ تھا، اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام مراحل میں جسم اقدس اور روح مبارک کے ساتھ جلوہ گر تھے۔ جب مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے تو جسم اقدس کے ساتھ روح مبارک بھی تھی اور جب مسجد اقصی سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہی پر تشریف لے گئے تو

اس وقت بھی روح مبارک جسم اقدس میں جلوہ گر تھی، البتہ یہ ضروری ہوا کہ اس عالم ناسوت میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بشریت مطہرہ بالفعل تھی اور ملکیت مقدسہ بالقوۃ۔ اسی طرح جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام جسم و روح اقدس کے ساتھ عالم ملائکہ میں پہنچے تو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت بالقوۃ اور ملکیت بالفعل ہو گئی تھی اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ’’مقام دنی فتدلی‘‘ پر جلوہ گر ہوئے تو بشریت و ملکیت دونوں بالقوۃ ہو گئیں اور کمال مظہریت قوت سے فعل کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ آدمی جب کسی پر غضبناک ہوتا ہے تو اس میں رحم کی صفت موجود ہوتی ہے، بولنے کی وقت خاموش ہونے کی اور خاموشی کے وقت بولنے کی طاقت انسان میں موجود ہوتی ہے۔ حرکت کے وقت سکون کی اور سکون کے وقت حرکت کی قوت انسان میں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح بشریت کے معراج کے وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ملکیت و مظہریت موجود تھی اور حقیقت ملکیہ کے وقت بشریت اور مظہریت دونوں صفتیں بحال تھیں۔ پھر حقیقت مظہریت کی معراج ہوئی تو بشریت اور ملکیت دونوں بدستور تھیں۔ ان تینوں میں سے ہر ایک کی معراج کے وقت اسی حقیقت کا غلبہ تھا۔ مسجد اقصیٰ میں بشریت، آسمانوں میں ملکیت و روحانیت اور عرش پر حقیقت مظہریت کو اللہ تعالی نے غالب فرما دیا تھا۔

بخاری شریف (جلد ثانی، صفحہ ۱۱۲۰) کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوا، پھر اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے اس سے بھی زیادہ قرب طلب فرمایا، یہاں تک کہ اللہ تعالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو کمانوں کی مقدار یا اس سے بھی زیادہ قریب ہو گیا (عینی، جلد ۲۵، صفحہ ۱۷۰) اور اللہ تعالی کا جمال مبارک سر اقدس کی آنکھوں سے دیکھا۔ (فتح الباری، جلد ۱۳، صفحہ ۴۱۷۔ نبراس، شرح عقائد)

واضح رہے کہ اسراء یعنی مسجد حرام سے بیت المقدس تک تشریف لے جانا قطعی اور یقینی ہے، جس کا منکر مسلمان نہیں اور زمین سے آسمان کی طرف معراج ہونا احادیث مشہورہ سے ثابت ہے، جس کا منکر فاسق اور ضال و مضل ہے۔ پھر آسمانوں سے جنت کی طرف اور عرش یا عرش کے علاوہ فوق العرش تک یا لامکاں تک اخبار احاد سے ثابت ہے، جس کا منکر سخت آثم اور گنہگار ہے‘‘۔ (شرح عقائد، نبراس صفحہ ۴۷۴)
معراج کا واقعہ درحقیقت ایمان کے لئے کسوٹی کا حکم رکھتا ہے، جو شخص اللہ تعالی کی ذات و صفات، علم و قدرت اور عظمت و حکمت پر کامل ایمان رکھتا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت، صداقت و کمالات کی دل سے تصدیق کرتا ہے، وہ واقعہ معراج یا اسی قسم کے خرق عادات امور کا کبھی انکار نیں کرسکتا۔ جب کہ قرآن و حدیث میں اس کا صاف اور واضح بیان بھی موجود ہے اور عہد رسالت سے لے کر ہر دور کے جمہور مسلمان اس کو بلا تاویل تسلیم کرتے چلے آئے ہیں۔

رہے وہ شکوک و شبہات جنھیں فلاسفہ کی اتباع میں نیچری پیش کیا کرتے ہیں کہ جسم طبعی مادی مرکب من العناصر کا عناصر کی حدود سے تجاوز کرنا اور آسمانوں پر صعود کرنا محال ہے۔ نیز آسمانوں میں خرق التیام بھی ناممکن ہے۔ پھر زمان و مکان کے بغیر کسی جسم کا پایا جانا بھی از قبیل محالات ہے۔ نیز رات کے قلیل ترین حصہ میں آسمانوں کی سیر کرکے واپس آنا کسی طرح ممکن نہیں۔
اس قسم کے تمام شکوک و شبہات کا جواب یہ ہے کہ ان تمام امور کے محال ہونے سے ان کی مراد محال عقلی ہے یا عادی۔ بر تقدیر اول آج تک استحالہ عقلیہ پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکی۔ جس قدر دلائل فلاسفہ کی طرف سے پیش ہوئے ہیں، ان سب کا مفاد استحالہ عادیہ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ جملہ امور متنازعہ فیہا از قبیل محالات عادیہ ہیں اور محال عادی ممکن بالذات ہوتا ہے اور ممکن بالذات حادث تحت قدرت ہے۔ لہذا یہ سب باتیں اللہ تعالی کی قدرت کے تحت ثابت ہوئیں اور معراج کرانا اللہ تعالی کا کام ہے، اس لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو عالم عناصر سے آسمانوں پر لے جانا اور رات کے بہت تھوڑے حصے میں واپس لے آنا سب کچھ اللہ تعالی کی قدرت و تصرف کا کرشمہ قرار پایا، جس پر فلاسفہ کا کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اسی لئے اللہ تعالی نے ’’سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی‘‘ فرمایا اور لے جانے کی نسبت اپنی ذات کی طرف فرمائی، تاکہ اعتراض کی کوئی گنجائش نہ رہے۔

میں تو یہ عرض کروں گا کہ اگر فلاسفہ سفر معراج شریف کے استحالہ پر دلائل قائم نہ کرتے تو ہمارا مدعا ثابت نہ ہوتا، اس لئے کہ ہم معراج کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا معجزہ کہتے ہیں اور معجزہ وہی ہے، جس کا وقوع عادتاً محال ہو، لہذا منکرین کو عاجز کرنے کے لئے ضروری تھا کہ پہلے اس کے استحالہ عادیہ کو ثابت کیا جائے، تاکہ قدرت ایزدی سے اس کا ظہور وقوع معجزہ قرار پاسکے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ کام کسی مسلمان سے تو ممکن نہ تھا کہ وہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ پر ایمان رکھنے کے باوجود معراج کے محال ہونے پر دلیلیں قائم کرے، لہذا جس اللہ نے اپنی قدرت سے معراج جیسے محال کو ممکن ہی نہیں بلکہ واقع کردیا، اسی قادر مطلق نے اپنی قدرت کاملہ سے فلاسفہ جیسے ملحدین اور بے دین لوگوں سے اس کے استحالہ پر دلیلیں قائم کرادیں، تاکہ ادّعاء استحالہ کے بعد اس کا وقوع اس کے معجزہ ہونے کی دلیل قرار پاسکے۔

تعجب ہے کہ مادی ترقی کے اس دور میں بھی لوگوں کو مسئلہ معراج میں تردد ہے، جب کہ محض مادی اور برقی طاقت کے بل بوتے پر انسان مشرق و مغرب اور جنوب و شمال کے قلابے ملا رہا ہے۔ زمین سے آسمانوں کی طرف ہوائی جہازوں کی پرواز، راکٹوں کا ستاروں تک پہنچنے کا ادعاء، چند منٹ میں ہزاروں میل مسافت طے کرنے کا زعم اور محض برقی طاقت سے، لیکن معراج کے معاملے میں اس حقیقت کو قطعاً نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ اللہ تعالی قادر و قیوم اپنی قدرت کاملہ سے اپنے ایسے روحانی و نورانی محبوب کو راتوں رات لے گیا، جس کی روحانیت کا مادہ پرست انکار بھی نہیں کرسکے، پھر براق پر لے گیا جو برق سے مشتق ہے۔ برق بجلی کو کہتے ہیں، جس کے بل بوتے پر انسان ضعیف البنیان آج منٹوں میں ہزاروں میل مسافت طے کرسکتا ہے، فضائے عالم کو چیرکر آسمانوں اور ستاروں کی طرف بلند پروازی کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اگر باقی تمام امور سے قطع نظر کرکے صرف اسی برقی طاقت کو مدنظر رکھ لیا جائے، تب بھی مسئلہ معراج میں کسی قسم کا خلجان باقی نہیں رہتا۔ (اقتباس)