حج صرف اور صرف اﷲ تبارک و تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کیا جائے ۔ جب کوئی انسان حج کے لئے نکلتا ہے تو شیطان بے چین ہوجاتا ہے اور طرح طرح سے کوششیں کرتا ہے کہ اس کے حج کے ثواب کو کم سے کم کیا جائے ۔ کبھی دل میں فخر اور ریاکاری پیدا کرتا ہے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیامت کے قرب میں کچھ مالدار لوگ حج محض سیر و تفریح کے ارادہ سے کریں گے اور درمیانی درجے کے لوگ حج کو تجارت کی غرض سے کریں گے کچھ سامان ادھر سے لے گئے تو اُدھر بیچ دیا اور اُدھر سے لائے تو اِدھر بیچ دیا اور حج بھی کرلیا اور کچھ ذی علم ( علم جاننے والے) ریا اور شہرت کی غرض کے ساتھ حج ادا کریں گے اور غرباء و مساکین بھیک مانگنے کی غرض سے حج کو جائیں گے ۔ حدیث شریف میں آگاہی فرمادی گئی ہے کہ لوگ اگر ایسا کریں تو تم ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا اور ان کے ساتھ مل کر ان جیسے نہ بن جانا لہذا ہر حاجی کو شیطان کے وسوسوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے بیت اﷲ شریف کو نہ صرف انسانوں کی اولین عبادت گاہ بتایا ہے بلکہ اسے عالمین کی ہدایت کا منبع و مرکز قرار دیاہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : ’’بے شک پہلے پہل جو عبادت گاہ لوگوں کے لئے تعمیر کی گئی وہ مکہ مکرمہ میں ہے جو دونوں جہاں کے لئے باعث ہدایت ہے ‘‘۔ کعبۃ اللہ وہ مقام ہے جہاں انوار و تجلیات کی بارش ہوتی ہے ۔ جہاں کا ہر ذرہ قدرت الٰہی کا دل کش نظارہ پیش کرتا ہے ۔مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے اور مسجد نبویؐ شریف میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے ۔ یہ تو کم سے کم ثواب بتایاگیا ہے کہ اتنا تو ضرور ملے گا لیکن جس کا جتنا خشوع و خضوع اور عبادت کا جذبہ ہوگا اﷲ تعالیٰ اپنے کرم سے اور اپنے حبیب پاک حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رحمتوں کی برکت سے زیادہ بھی عطا فرمادے گا لہذا پورے سفر میں ان دونوں مقدس مقامات پر عبادت میں کوئی غفلت نہیں کرنی چاہئے ۔