تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
سفاکیت کا خاتمہ ضروری
ایسا لگتا ہے کہ گجرات کے بعد اب راجستھان فرقہ پرستوں کی لیباریٹری میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ یہاں آئے دن مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات پیش آتے جا رہے ہیں اور یہ سب واقعات انتہائی مذموم ‘ انسانیت سوز اور سفا ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ملک بھر میں شائد ہی کوئی ریاست ایسی ہوگی جہاں اس طرح سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا نہ جا رہا ہو تاہم حکومتیں خواب غفلت کا شکار ہیں یا پھر یہ اپنی خاموشی سے ان درندوں کی حوصلہ افزائی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ خاص طور پر راجستھان کی وسندھرا راجے سندھیا کی حکومت ایسا لگتا ہے کہ ان درندوں اور انسانیت سوز فرقہ پرست عناصر کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن گئی ہے اور وہ ان بھیڑیوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی بجائے ان کے بچاو کیلئے زیادہ تدابیر کر رہی ہے ۔ گذشتہ دنوں ایک ویڈیو سوشیل میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آیا ۔ اس ویڈیو میں انسانیت کو شرمسار ہوتا دیکھا گیا ۔ ایک انتہائی سفاکانہ واقعہ میں ایک غریب مسلمان مزدور کو محض فرقہ پرستانہ ذہنیت کی اختراع لو جہاد کے نام پر پیٹ پیٹ کر ادھ موا کردیا گیا اور پھر اسے زندہ جلادیا گیا ۔ اس طرح کے انتہائی مذموم واقعہ کا مقامی پولیس اور حکومت کو اس وقت تک پتہ نہیں چلتا جب تک سوشیل میڈیا پر اس تعلق سے مہم شروع نہیں ہوجاتی ۔ اس کے بعد پولیس اور حکومت حرکت میں آتے ہیں اور جو کارروائی کی بھی جاتی ہے وہ محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے ہوتی ہے یا پھر دنیا دکھاوے کیلئے ہوتی ہے ۔ حقیقی معنوں میں اس طرح کے وحشیوں اور درندہ صفت عناصر کو قرار واقعی سزا دلانے کیلئے نہ پولیس کوئی کارروائی کرتی ہے اور نہ حکومتوں کی جانب سے کوئی ہدایت جاری کی جاتی ہے ۔ راجستھان کی وسندھرا راجے سندھیا کی حکومت اپنا وجود کھوتی جا رہی ہے ۔ اس بات کا احساس ہی نہیں ہو پا رہا ہے کہ راجستھان میں کوئی حکومت بھی ہے ۔ یا پھر یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکومت تو ہے لیکن وہ مجرمین اور بھیڑیوں کوسزائیں دلانے کی بجائے انہیں بچانے کیلئے زیادہ سرگرم ہے ۔ اگر سندھیا حکومت راجستھان میں پہلو خان کے قتل پر کارروائی کرتی ‘ اگر دوسرے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کے بعد قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی تو شائد صورتحال مختلف ہوتی ۔
حکومتیں اپنی مجرمانہ خاموشی سے ان بھیڑیوں کے حوصلے بڑھا رہی ہیں۔ سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی فاشسٹ ذہنیت کی تنظیمیں اس ملک کا ماحول پراگندہ کر رہی ہیں۔ سماج کے دو اہم طبقات کو ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کا شکار کیا جار ہا ہے ۔ ایک دوسرے سے دوریوں کو بڑھایا جا رہا ہے ۔ ایک دوسرے سے متنفر کیا جا رہا ہے ۔ ان سب کی آڑ میں اپنے عزائم اور ناپاک منصوبوں کو پورا کیا جا رہا ہے ۔ وقفہ وقفہ سے کسی نہ کسی بہانے سے کسی مسلمان کا انتہائی بیدردی سے قتل کیا جاتا ہے اور مجرمین کو پولیس اور حکومت کی پناہ اوربالواسطہ تائید حاصل ہوجاتی ہے ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ خود متوفی کے افراد خاندان کو مقدمات کا شکار کردیا جاتا ہے ۔ یہ مجرمانہ غفلت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ جوواقعات اب تک اس ملک کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں پیش آئے ہیں ان سے حکام کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں ۔ جو لوگ محض کسی افواہ کے نام پر انسانوں کا قتل کر رہے ہیں انہیں سر عام پھانسی دی جانی چاہئے ۔ کبھی گئو کشی کے نام پر تو کبھی جانوروں کی اسمگلنگ کے نام پر ‘ کبھی گوشت رکھنے کے شبہ میں تو کبھی لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کا وقفہ وقفہ سے قتل کیا جا رہا ہے ۔ اب تک جتنے بھی الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں ۔ اگر ان میں کوئی سچائی ہے بھی تو فرقہ پرستوں کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں لیں یا محض شبہ کی بنیاد پر کسی کو سزا دیدی جائے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیا جن لوگوں نے مسلمانوں کو قتل کیا ہے انہیں بھی ہجوم کے حوالے کرکے سزائیں دلائی جانی جاسکتی ہیں ؟ ۔
اس طرح کے سفاکانہ واقعات اب ختم ہونے چاہئیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سفاکانہ ذہنیت کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ حکومتوں کو اپنے دستوری حلف اور ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ذہنیت اب ملک کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے ۔ جو چاہے قانون اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے ۔ اس سے خود قانون کی بالادستی پر سوال پیدا ہونے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کا پرامن ماحول مکدر ہونے کے اندیشے تقویت پاتے جا رہے ہیں۔ اگر اس طرح کے واقعات پر عوام کی برہمی میں شدت پیدا ہوجاتی ہے تو پھر صورتحال اور بھی ابتر ہوسکتی ہے ۔ اس طرح کے واقعات کا کسی نہ کسی انداز میں دفاع کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے ۔ خاطیوں کو قرار واقعی سزائیں دلانے کیلئے پولیس اور حکومتوں کو پوری دیانتداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ملک کا امن متاثر ہوسکتا ہے اور اس کی ذمہ داری حکومتوں پر بھی عائد ہوگی ۔