سعودی عرب کی فوجی تائید کیلئے پاکستانی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس

اسلام آباد۔ 2 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے آج پارلیمنٹ کے خصوصی مشترکہ اجلاس پیر کے دن منعقد کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ سعودی عرب زیرقیادت اتحادی افواج خاص طور پر خلیجی ممالک کی افواج جو یمن میں حوثی باغیوں سے برسرپیکار ہیں، کی مدد کیلئے فیصلہ کیا جائے۔ نواز شریف نے صدر پاکستان ممنون حسین سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کریں، کیونکہ یہ مسئلہ قومی اہمیت رکھتا ہے۔ قبل ازیں اعلیٰ سطحی وفد نے جو ریاض کے دورہ پر تھا، انہیں صورتِ حال سے واقف کرواتے ہوئے کہا کہ سعودی قیادت کے ساتھ ’’اچھا‘‘ تبادلہ خیال ہوچکا ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جو ریاض میں وفد کی قیادت کررہے تھے، نواز شریف کو وزیر دفاع سعودی عرب محمد بن سلمان سے اپنی بات چیت کی تفصیلات سے واقف کروایا۔ انہوں نے سعودی حکومت کے بحران کے پیش نظر مطالبات سے بھی قائدین کو واقف کروایا۔ سعودی عرب نے پاکستان سے فوجی امداد کی درخواست کی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے قریبی تعلقات ہیں، تاہم پاکستان نے ہنوز سعودی عرب کی تائید کا واضح اشارہ نہیں دیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ایسا فیصلہ کرنے سے ہچکچا رہا ہے کیونکہ حوثی باغیوں کو ایران کی تائید حاصل ہے۔ علاوہ ازیں ملک میں فرقہ وارانہ منافرت بھی پائی جاتی ہے۔

یمن کی 80 فیصد آبادی سعودی عرب کی اور 20 فیصد آبادی ایران کی حامی ہے۔ آج جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے عوام کے درمیان قریبی تاریخی، ثقافتی اور مذہبی قربت کی بناء پر اس ادعا کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ سعودی عرب کو علاقائی یکجہتی سے الگ تھلگ کردینے کی صورت میں پاکستان منہ توڑ جواب دے گا۔ وزیراعظم نے مزید زور دے کر کہا کہ اس سلسلے میں فیصلہ پاکستانی عوام کی خواہش کے مطابق کیا جائے گا۔ اس کے لئے وزیراعظم نے صدر پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ پیر 6 اپریل کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے تاکہ قومی اہمیت کے اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ پاکستان کی اپوزیشن بڑے پیمانے پر یمن کی جنگ میں شامل ہونے کی حامی ہے۔ کئی سیاست داں اور سبکدوش فوجی عہدیداروں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ جنگ کا حصہ بننے سے گریز کرے، کیونکہ اس طرح فرقہ وارانہ خطوط پر عوام کی تقسیم اور اندرون ملک مشکلات کا اندیشہ ہے۔ پاکستان کی بڑی اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس حساس مسئلہ پر کُل جماعتی اجلاس طلب کیا جائے۔

سعودی زیرقیادت فوجی اتحاد حوثی باغیوں پر فضائی حملے کررہا ہے، جو ساحلی شہر عدن کی سمت پیشرفت کررہے ہیں۔ سعودی عرب کے حمایت یافتہ صدر عبدالرب منصور ہادی کا یہ آخری قلعہ ہے، تاہم انہیں رات بھر زبردست شلباری کا سامنا کرنا پڑا۔ بیان میں غیرسرکاری افراد کی یمن میں کارروائیوں پر تنقید کی گئی جو جائز حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتے ہیں۔بیان میں متحارب گروہوں سے تمام مسائل کی پرامن یکسوئی کرنے کی اپیل کی گئی۔ وزیراعظم نے عالم اسلام میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ القاعدہ کے عسکریت پسند آج جنوب مشرقی یمن کے جیل خانہ میں زبردستی داخل ہوگئے اور سینکڑوں قیدیوں بشمول ان کے قائدین میں سے ایک کو رہا کروادیا۔ خالد بطارفی القاعدہ کے سینئر قائد ہیں، جنہیں چار سال سے زیادہ مدت سے قید میں رکھا گیا تھا، وہ ان 300 سے زیادہ قیدیوں میں شامل ہیں جنہیں القاعدہ کے صوبہ حضرموت کے جیل خانہ سے رہا کروادیا۔ دو چوکیدار اور 5 قیدی جھڑپوں کے دوران ہلاک ہوگئے۔ القاعدہ کے عسکریت پسند آج مقامی انتظامی کی عمارتوں کی حفاظت پر تعینات فوجیوں سے صوبائی دارالحکومت مکلا میں متصادم ہوگئے۔

نواز شریف کا آج دورۂ ترکی ، یمن پر گفتگو
اسلام آباد۔ 2 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نواز شریف کل ترکی کا دورہ کریں گے تاکہ یمن کے بحران پر ترکی قیادت سے تبادلہ خیال کرسکیں۔ وزیراعظم پاکستان نے صدر ترکی رجب طیب اردغان سے منگل کے دن ٹیلیفون پر بات چیت کی تھی اور فیصلہ کیا تھا کہ وہ تفصیلی مذاکرات کریں گے۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان بہترین تعلقات اور قیادت کے درمیان شخصی روابط کی بناء پر وزیراعظم پاکستان اور صدر ترکی ،یمن کی صورتِ حال پر باہمی تبادلہ خیال کریں گے۔ دونوں قائدین یمن کے مسئلہ کی یکسوئی میں دونوں ممالک کی مدد کے امکانات پر بھی غور کریں گے۔ پاکستان پر سعودی زیرقیادت 10 رکنی اتحاد کی فوجی امداد کیلئے زبردست دباؤ ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان اور ترکی ، تنازعہ کی یکسوئی پر باہم تبادلہ خیال کریں گے، کیونکہ اس تنازعہ کی عدم یکسوئی کی صورت میں عالم اسلام فرقہ وارانہ خطوط پر منقسم ہوسکتا ہے۔ حالانکہ سعودی عرب سے پاکستان کے قریبی تعلقات ہیں، اس کے باوجود پاکستان سعودی عرب کی فوجی مدد کرنے سے ہچکچا رہا ہے کیونکہ پڑوسی ایران سے بھی اس کے اچھے روابط ہیں۔