ریاض۔/27جنوری، ( سیاست ڈاٹ کام ) صدر براک اوباما نے سعودی عرب کے ساتھ قومی سلامتی پرگہرے تعلقات کے لئے امریکی آمادگی کی مدافعت کی حالانکہ انسانی حقوق کے استحصال کے بارے میں کافی تشویش پائی جاتی ہے، اس طرح انہوں نے خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ کے انتقال کے پیش نظر آج موجودہ اور کئی سابق امریکی مدبرین کی طرف سے خراج عقیدت پیش کیا۔ سعودی عرب کا واشنگٹن کے نہایت اہم عرب حلیف کی حیثیت سے موقف بعض اوقات بظاہر کمزور ہوتا دکھائی دیا کیونکہ دہشت گردی کو فنڈز فراہمی اور سلطنت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تعلق سے امریکہ کو تشویش ہوتی رہی ہے۔ لیکن اوباما نے کہا کہ ان کی دانست میں قریبی روابط قائم رکھتے ہوئے بھی انسانی حقوق کے معاملہ میں دباؤ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اوباما نے سی این این کو انٹرویو میں جو اوباما کی آمد سے پیشتر نشر کیا گیا، کہا کہ بعض اوقات ہمیں توازن کا معاملہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور انسداد دہشت گردی یا علاقائی استحکام برقرار رکھنے کے معاملہ میں اسی طرح کا طرزِ عمل اختیار کرنا پڑے گا۔ نئے سعودی حکمران شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود سلمان نے اوباما اور امریکی وفد کا ریاض کے مضافات میں واقع ارگہ پیالیس میں باقاعدہ استقبال کیا، جہاں درجنوں سعودی عہدیدار بھی مہمانوں کے استقبال کیلئے موجود تھے۔ مختصر عشائیہ کے بعد اوباما اور سلمان اپنی اولین باقاعدہ میٹنگ کیلئے یکجا ہوئے جس کے بعد انہوں نے میڈیا کیلئے کوئی ریمارکس نہیں کئے۔ اپنی آمد سے قبل اوباما نے اشارہ دیا تھا کہ وہ انٹرنیٹ بلاگر رائف بداوی کو اہانت اسلام کا خاطی پائے جانے پر 10سال قید اور 1000 کوڑوں کی سزا پر امریکی تشویش کا مسئلہ نہیں اُٹھائیں گے۔ قبل ازیں ریاض میں طیارہ سے باہر آنے پر امریکی صدر براک اور خاتون اول میشل کا شاہ سلمان نے استقبال کیا اور ملٹری بیانڈ نے دونوں ملکوں کے قومی ترانوں کی دھن بجائی۔ تمام مرد ارکان پر مشتمل سعودی وفد کے بعض ارکان نے مسز اوباما سے مصافحہ کیا جبکہ دیگر نے ان کا اشارہ سے استقبال کیا۔ مسز اوباما نے بھرپور لباس زیب تن کررکھا تھا لیکن کوئی ہیڈ اسکارف نہیں تھا جو کہ سعودی عرب میں کوئی بھی مغربی خاتون کیلئے عام بات ہے۔