سعودی عرب کو مردوں کی سرپرسرستی والے نظام کے استحصال پر توجہہ دینے کی ضرورت ہے۔میڈیا رپورٹس

ریاض۔سعودی عرب کو اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح مردوں کی سرپرستی والے نظام کا استحصال کیاجارہا ہے‘ پچھلے ماہ ایک اٹھارہ سالہ عورت کی تھائی لینڈ سے ہوائی جہاز کے مرکز توجہہ ہونے کے اس مسلئے پر چوکسی کے بعد پیر کے روز سعودی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا۔

ہر سعودی عورت کے ساتھ ایک مرد رشتہ دار لازمی ہے ‘ چاہئے وہ والد ہوں یا پھر شوہر یا کبھی چچا ‘ تو کبھی بھائی یہاں تک کہ بیٹا ‘ جس کی منظوری سے ہی وہ شادی کرسکتی ہے یا بیرونی مالک جانے کے لئے پاسپورٹ حاصل کرسکتی ہیں۔ دائیں بازو گروپوں کا کہنا ہے کہ ان انتظامات نے عورتوں کو دوسرے درجہ کاشہری بنادیا ہے ‘ انہیں سماجی اور اقتصادی آزاد ی سے دور کردیا ہے اور انہیں خطرناک تشدد کا نشانہ بنارہا ہے۔

کوئی شرعیہ قانون یا اسلامی قانون بنائے بغیر سعودی کی پولیس اور عدالتوں نے سماجی حصوں میں عورتوں پر تحدیدات نافذ کئے ہیں۔ مخصوص قوانین کے بجائے غیر رسمی طریقوں سے سرپرستی کے نظام کی کئی پہلوؤں میں رکاوٹ کھڑی کی جارہی ہے ۔

انگریزی روزنامہ سعودی گز ٹ کے مطابق سعودی پبلک پراسکیوٹر سعود المجیب نے کہاکہ ان کا دفتر ’’ کسی بھی فرد چاہئے وہ عورت ہو ‘ بچے یا والدین‘ پرسرستی کے اختیار کا غلط استعمال کرنے‘‘ کی ہماری دفتر ہر گز اجازت نہیں دے گا۔

ان کے دفتر میں بہت ہی کم تعداد میں سرپرستی کے معاملے پر شکایتیں موصول ہوتی ہیں ‘ انہو ں نے مزیدکہاکہ اس کی تفصیلا ت بھی نہیں دی جاتی۔حکومت کا کمیونکیشن افسر فوری طور پر تبصرے کے لئے دستیاب نہیں رہا۔

جہدکاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عورتوں کو اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ استحصال کی پولیس سے شکایت کی وجہہ سے ان کی زندگیو ں کو خطرات نہ بڑ جائیں ۔ وہ سرپرستی کے نظام کو ختم کرنے کی مانگ کررہے ہیں‘ جس پر عمل کی شروعات تو ہوئی ہے مگر اس کا نفاذ ابھی باقی ہے۔

ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں کچھ اصلاحات او رآزادی تو ملی ہے مگر جنسی امتیاز اور اس کو ختم کرنے کے ضمن میں لگی تحدیدات اب بھی باقی ہیں۔پچھلے ماہ راہاف محمد کا واقعہ جو کویت سے چھوٹیاں کے دوران غائب ہوگئی تھی اور بینکاک ائیر پورٹ سے مدد کے لئے ٹوئٹ کیا جس کے بعد ان لائن مہم کی شروعا ت ہوئی اور کینڈا نے اس کو پناہ دینے کی پیشکش کی ۔