سعودی عرب میں پرنس ولید بن طلال کے بشمول 11 شہزادے گرفتار

 

موجودہ و سابق وزراء کی بھی گرفتاریاں ، کرپشن کیخلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا دعویٰ ، کابینہ میں ردوبدل ، ولیعہد محمد بن سلمان کی گرفت مضبوط

ریاض۔ 5 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) سعودی عرب میں نوجوان ولیعہد نے اختیارات اپنے پاس مرکوز کرتے ہی امکانی بغاوت کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کی اور انسدادِ کرپشن کے حوالے سے 11 شہزادوں بشمول ایک نامور ارب پتی اور دیگر کئی موجودہ و سابقہ وزراء کو گرفتار کرلیا۔ اس کے علاوہ ایک علیحدہ کارروائی میں سعودی نیشنل گارڈس کے سربراہ جو کبھی عنان حکومت سنبھالنے کے ایک اہم دعویدار تھے، بحریہ کے سابق سربراہ اور وزیر فینانس کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔ بڑے پیمانے پر معزولی اور ردوبدل نے مملکت سعودی عرب نے حیرت و تعجب کی لہر دوڑا دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ انتہائی طاقتور ولیعہد محمد بن سلمان کی زیرقیادت نئے اینٹی کرپشن کمیشن کے قیام کے فوری بعد یہ کارروائی کی گئی۔ کل تاخیر سے جاری کردہ شاہی فرمان کے ذریعہ اس کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ سعودی ملکیت ’’العربیہ‘‘ ٹی وی نے اطلاع دی کہ شہزادوں، 4 موجودہ اور دیگر کئی سابقہ وزراء کو ہی کمیشن نے پرانے مقدمات کی تحقیقات کے ضمن میں گرفتار کیا ہے۔ ان میں 2009ء میں جدہ میں آئے سیلاب سے تباہ کاری کا مقدمہ شامل ہے۔ سرکاری سعودی پریس ایجنسی نے بتایا کہ کمیشن کا مقصد عوامی رقومات کا تحفظ، بدعنوان افراد اور ان لوگوں کو جو اپنے عہدوں کا استحصال کررہے تھے، سزا دینا ہے۔ ان گرفتار شدگان میں سعودی عرب کے ارب پتی پرنس الولید بن طلال بھی شامل ہے۔ سعودی خبر رساں ویب سائیٹس نے یہ اطلاع دی جبکہ سرکاری طور پر اس کی توثیق نہ ہوسکی۔ پرنس ولید بن طلال سے بھی اس معاملے میں ربط قائم نہ ہوسکا۔ شہری ہوا بازی سے وابستہ ذرائع نے بتایا کہ سکیورٹی فورسیس نے خانگی جیٹ طیاروں کو جدہ میں روک لیا ہے، اس کا مقصد اہم اور کلیدی شخصیتوں کو ملک چھوڑنے سے روکنا ہے۔ اس دوران سعودی عرب کے علماء کرام کی سرکردہ کونسل نے ٹوئٹ کیا کہ انسدادِ کرپشن اقدامات، دہشت گردی کے خلاف لڑائی کیلئے اہمیت کے حامل ہیں۔ اس طرح حکومت کی اس بڑے پیمانے پر کی گئی کارروائی کو مذہبی تائید حاصل ہے۔ رائس یونیورسٹی میں بیکر انسٹیٹیوٹ فار پبلک پالیسی کے فیلو کرسچین الرچسن نے کہا کہ سعودی عرب میں جو انتہائی بڑے پیمانے پر کارروائی کی گئی ہے، ملک کی عصری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ پرنس الولید بن طلال کو محروس رکھنے کی اطلاع اگر درست ہے تو اس سے ملکی اور بین الاقوامی بزنس کمیونٹی میں حیرت کی لہر دوڑ جائے گی۔ یہ کارروائی ایسے وقت کی گئی جبکہ دو ہفتے قبل ہی پرنس محمد بن سلمان نے ریاض میں سرمایہ کاری چوٹی اجلاس کے موقع پر ہزاروں عالمی تجارتی سرکردہ شخصیتوں کا خیرمقدم کیا اور ملک میں مابعد تیل دور کے معاشی اصلاحات سے انہیں واقف کرایا۔ یہی نہیں ستمبر میں بااثر علمائے کرام اور سماجی کارکنوں کی بھی بڑے پیمانے پر گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی۔ 32 سالہ پرنس محمد بن سلمان جو ‘MbS’ سے معروف ہیں، اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ممکنہ کوششوں میں جٹے ہوئے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جنہیں گرفتار کیا گیا ہے ، ان میں اکثر پرنس محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کی جارحانہ خارجہ پالیسی کی مزاحمت کررہے تھے۔ ان میں پڑوسی ملک قطر کا بائیکاٹ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بعض دیگر اصلاحات بشمول سرکاری اثاثہ جات کو خانگیانے اور سبسڈی میں کٹوتی کی بھی مخالفت کی جارہی ہے۔ تازہ کارروائی میں پرنس متعب بن عبداللہ کو بحیثیت نیشنل گارڈس سربراہ برطرف کردیا گیا۔ یہ انتہائی اہمیت کی حامل داخلی سلامتی فورس ہے۔ ان کی برطرفی نے مملکت سعودی عرب کے سکیورٹی اداروں پر ’’ایم بی ایس‘‘ کی گرفت کو مزید مضبوط بنادیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے بموجب ’’ایم بی ایس‘‘ نے کم عرصہ میں غیرمعمولی طور پر ایسے اقدامات کئے، جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جون میں انہوں نے پہلا اقدام یہ کیا کہ 58 سالہ چچا زاد بھائی پرنس محمد نائف کو ولیعہد کے منصب سے ہٹا دیا اور خود اقتدار کے جانشین بن گئے۔ اُس وقت سعودی ٹی وی چیانلس پر یہ بھی دکھایا گیا کہ ’’ایم بی ایس‘‘ اپنے چچا زاد بھائی کے ہاتھوں کا بوسہ لے رہے ہیں اور ان کے سامنے جُھکتے ہوئے انکساری کا اظہار کررہے ہیں۔ مغربی میڈیا میں یہ اطلاعات گشت کررہی تھیں کہ معزول پرنس کو نظربند کردیا گیا ہے جبکہ سعودی حکام نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی۔ پرنس محمد بن نائف کا حکومتی سطح پر دفاع سے لے کر معیشت تک ہر سطح پر مکمل کنٹرول تھا اور وہ عملاً حکمرانی انجام دے رہے تھے۔ (سلسلہ صفحہ 4 پر)