سفینے اپنے تباہی کی سمت جاتے ہیں
یہیں سے موڑ لو رُخ کو ابھی سویرا ہے
سعودی عرب میں حملے
عالم اسلام کو نشانہ بنانے کی سازشوں کا لامتناہی سلسلہ اب مقدس شہروں کے قریب پہونچ گیا ہے تو یہ اندوہناک قابل مذمت کارروائی ہے جس کی دنیائے امن کے ہر باشندے کو مذمت کرنی چاہئے۔ دہشت گردی اور نفرت کی لہر کو اس تیزی سے پھیلایا جارہا ہے کہ مقامی سطح پر ناداں لوگ ان طاقتوں کا آلہ کار بن کر عالم اسلام کے قلب کو چھلنی کرنے کی ناپاک کوششوں میں ملوث ہورہے ہیں۔ ہر بڑی طاقت نے خود کے غلبہ کو یقینی بنانے کے لئے دہشت گردی کے طریقہ کو اختیار کرنا شروع کیا ہے تو یہ ساری دنیا کے حکمرانوں اور امن پسند انسانوں کے لئے لمحہ فکر ہے۔ دہشت گردوں نے اس مرتبہ عالم اسلام کے قلب پر حملے کی ناپاک کارروائی انجام دے کر ان طاقتوں کے حوصلے بڑھا دیئے ہیں جو اسلام دشمنی میں حد سے زیادہ تباہی لانے کے درپے ہیں۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پارکنگ میں خودکش حملے میں 4 سکیورٹی جواں شہید ہوئے۔ اس حملے میں دیگر 5 زخمی بتائے گئے۔ سکیورٹی جوانوں نے اس مقدس سرزمین پر واقع حرم نبویؐ کے حدود میں داخل ہوکر دھماکہ کرنے کی کوشش کو ناکام بنایا۔ اس حملے میں مقامی سعودی شہری 18 سالہ عمر الہادی کے ملوث ہونے کی توثیق کی جارہی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں نے مقامی طور پر اپنے سلیپر سیلس کو اتنی تیزی سے پھیلانا شروع کیا ہے کہ یہ لوگ اپنی ذاتی نفرت کو ایک دہشت ناک عمل کے ذریعہ انجام دینا چاہتے ہیں۔ سعود عرب میں پیر کے دن ہوئے تین دھماکوں کے بعد شاہی حکمرانوں کو قومی سلامتی کی پالیسی اور سکیورٹی ڈھانچہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی فکر لاحق ہونی چاہئے۔ مقدس شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں لاکھوں معتمرین کا اجتماع رہتا ہے۔ ان خاص ایام میں سکیورٹی انتظامات ایک نازک رُخ اختیار کرجانے میں پھر بھی سعودی حکام نے عازمین عمرہ کی سلامتی کیلئے اپنی صلاحیتوں کا بہتر سے بہتر مظاہرہ کرکے سکیورٹی انتظامات کو یقینی بنایا ہے۔ سرحدوں پر چوکسی اور ایرپورٹس و بری و بحری دستوں راستوں پر ناکہ بندی، تلاشی کے سخت ترین اصول ہونے کے باوجود جب اپنے ہی گھر سے کوئی نوجوان دہشت گردوں کا آلہ کار بن کر کام کرتا ہے تو یہ نہایت ہی خطرناک تبدیلی ہے۔ سعودی عرب کے شہر قطیف کی مسجد عمران بھی دہشت گردوں کا نشانہ تھی۔ مسجد کے باب الداخلہ کے قریب دھماکہ ہوا جس میں تین افراد کے اعضاء دستیاب ہوئے۔ مدینہ منورہ اور شہر قطیف کے علاوہ دہشت گردوں نے جدہ میں امریکی قونصل خانے کی پرانی عمارت کے قریب بھی خودکش دھماکے کئے جن میں دو پولیس ملازمین زخمی ہوئے۔ یہاں حملہ کرنے والا پاکستانی شہری بتایا گیا ہے جس کی شناخت عبداللہ گلزار خاں کی حیثیت سے کی گئی ہے جو 12 سال سے سعودی عرب میں ڈرائیور کی حیثیت سے کام کررہا تھا۔ سعودی عرب پر نظر رکھنے والی طاقتوں نے عراق اور شام، یمن کے راستے مقدس شہروں تک پہونچنے کی کوشش کی ہے۔ عیدالفطر کے موقع پر علاقائی سطح پر خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ سعودی عرب کے خلاف القاعدہ کے بعد آئی ایس آئی ایس کی کارروائیوں نے تشویشناک صورتحال پیدا کردی۔ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے تمام زاویوں سے تحفظ اور سلامتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اتوار کے دن بغداد اور اس کے بعد عراق میں ہوئے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم دولت اسلامیہ نے استنبول ایرپورٹ کو بھی نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس طرح کے دھماکے کرنے کیلئے کویت میں آئی ایس آئی ایس نے اپنے سلیپر سیلس روانہ کئے تھے۔ مقامی پولیس نے اس کوشش کو ناکام بنایا۔ اسلامی تاریخ کے اہم ایام میں ہی داعش نے بم دھماکے کرنے انسانوں کا خون بہانے کی کوشش کی ہے تو ایسی طاقت کی سرکوبی کے لئے عالم اسلام کی حکمراں طاقتوں کو چپ نہیں رہنا چاہئے۔ مسجد نبویؐ کے قریب تک پہونچنے والی دہشت گردی شاہی حکمرانوں کے لئے لمحہ فکر ہے۔ اس کے بعد آئندہ کیا ہوگا اور کیا ہوسکتا ہے، یہ غور کرنا ضروری ہے۔ سعودی عرب میں حالیہ برسوں میں مذہبی مقامات کا دورہ کرنے عمرہ اور زیارتوں کے لئے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح کے دھماکوں کے ذریعہ سعودی عرب کی سکیورٹی صورتِ حال کو ابتر بنانے کی کوشش کی ہے لہذا سعودی حکام کو پہلے سے زیادہ اپنا سکیورٹی ڈھانچہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ داعش نے اپنی کارروائیوں کا جال پھیلانا شروع کیا ہے تو اس طاقت کو کچلنے کے لئے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے ملکوں کو از سرنو انسداد دہشت گردی پالیسی مرتب کرکے سخت ترین اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔