اب نہ اپنوں سے نہ اغیار سے جی ڈرتا ہے
عشق کی غیرتِ خوددار سے جی ڈرتا ہے
سعودی عرب میں تبدیلیاں
سعودی عرب میں انسداد رشوت ستانی اقدامات اور شفاف و جوابدہ حکمرانی کو یقینی بنانے والے فیصلوں سے کئی شہزادوں پر عتاب نازل ہوا ہے ۔ پرنس ولید بن طلال کے خلاف سعودی عرب کے نئے ولیعہد محمد بن سلمان کی کارروائی اور دیگر شہزادوں کی گرفتاری کے پس پردہ وجوہات کے بارے میں مختلف الرائے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کی معیشت اور اس کے مستقبل کو مستحکم بنانے کے ادعا کے ساتھ شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے تیز رفتاری کے ساتھ کارروائی کرتے ہوئے موجودہ اور سابق وزراء کو بھی گرفتار کیا ہے ۔ 32 سالہ پرنس محمد بن سلمان نے جب اپنے چچا زاد بھائی 58 سالہ شہزادہ محمد نائف کو ولیعہد کے منصب سے ہٹا کر خود اقتدار سنبھالا تو سعودی عرب کی شاہی حکمرانی میں آنے والی تلخ تبدیلیوں کا اشارہ دیدیا تھا ۔ ان کے متواتر سخت فیصلے اور اقدامات سے واضح ہونے لگا ہے کہ وہ سعودی عرب کے داخلی اور بیرونی امور کو اپنے نکتہ نظر سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ بظاہر سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیاں کرپشن کے خلاف جنگ کے نام سے مقبول بنادی جارہی ہیں ۔ مگر اس کے پس پردہ کیا محرکات ہیں ان کا متعاقب پتہ چلے گا ۔ سعودی عرب پر حالیہ برسوں میں جن بیرونی طاقتوں کی نظریں گڑھی ہوئی تھیں اور داخلی معاملوں پر اپنی رائے کے ذریعہ مداخلت کی بھی درپردہ کوشش کی جانی لگی تھیں اس کے بعد ہونے والی تبدیلیوں سے یہی گمان غالب ہورہا ہے کہ سعودی عرب کو خطرات کی جانب ڈھکیلا جاسکتا ہے ۔ موجودہ تبدیلیاں اور شاہی حکمراں کی کارروائیاں سعودی عرب کی بہتری کے لیے بتائی جارہی ہیں ۔ سعودی ولیعہد کو اپنے ملک میں تبدیلیاں لانے کا داعی قرار دیا جارہا ہے تو وہ آنے والے دنوں میں مزید سخت فیصلے کر کے سعودی عرب اور سعودی عوام کو ایک روشن اور ترقی و خوشحالی والا ملک بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بلا شبہ یہ کوشش سارے عالم عرب بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک انقلابی تبدیلی کہلائے گی ۔ اب تک کے اقدامات پر خوش سعودی باشندوں کے چند گوشوں نے یہ امید تو ظاہر کی ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے سعودی عرب کو فائدہ ہوگا ۔ شاہی مملکت میں پہلے ہی سے سخت شرعی قوانین پر عمل ہوتا ہے اس طرح کی سختیوں اور پابندیوں کے باوجود اب تک اس ملک میں کرپشن کا چلن ہونے کا ادعا کرتے ہوئے کارروائی ہورہی ہے تو پھر سعودی عرب کی ماضی قریب کے حکمرانوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے ۔ سعودی عرب ایک مقدس سرزمین ہے اور یہاں کی حکمرانی سارے عالم اسلام کے لیے ایک پاک و صاف شفاف حکومت کے طور پر قابل محترم اور قابل تقلید سمجھی جاتی رہی ہے ۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ موجودہ حکمراں اور ان کے ارکان نے اپنی کارروائیوں کے ذریعہ اپنے بزرگوں کی کارکردگی کو شبہ کے دائرہ میں پہونچا دیا ہے ۔ کرپشن یا بدعنوانیوں کا جس طرح کا ذکر ہورہا ہے وہ افسوسناک ہے ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب جیسے ایک طاقتور ملک پر ایک 32 سالہ ناتجربہ کار نوجوان کو حکومت کرنے کا موقع دیا جارہا ہے تو اس کے عواقب و نتائج کیا ہوں گے یہ آنے والے وقت پر ہی ظاہر ہوں گے ۔ مستقبل قریب میں سعودی عرب کی صورتحال کیا ہوگی اور اس میں ولیعہد محمد بن سلمان کا کردار کس اونچائی کو پہونچے گا اس پر ساری دنیا کی نظریں مرکوز ہوں گی ۔ اگر سعودی عرب کا موجودہ سیاسی عمل اور تبدیلیوں کی لہر جاری رہے گی اور اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے تو سعودی عوام کے ساتھ دیگر عالم اسلام کے اقوام پر مثبت اثرات مرتب ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے فیصلوں سے سعودی عرب کے موجودہ حالات کا منطقی نتیجہ کیا نکلے گا اس سوال کا جواب تلاش کرنے والوں کے لیے ’ بہار عرب ‘ تحریک کو یاد کرناضروری ہے کیوں کہ اس تحریک نے ہی شاہی حکمرانوں کے مستقبل پر خزاں مسلط ہونے کی حقیقت سے باخبر کردیا تھا ۔ اس کے بعد سعودی عرب میں دھیرے دھیرے جو تبدیلیاں دیکھی جارہی تھیں ان کی انتہا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے حالیہ فیصلوں میں دیکھی گئی ہے ۔ اگر شاہ سلمان کو نوجوان ولیعہد محمد بن سلمان کے تدبر اور بصیرت پر کامل ایقان ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ آگے بھی سب کچھ ٹھیک ہی ہوگا اور شفافیت اور جوابدہی کے نئے دور کے لیے جو پہل کی گئی ہے اس سے ایک بڑی تبدیلی آسکتی ہے ۔۔