سعودی عرب کو عالم اسلام میں ایک طاقتور ملک کاموقف حاصل ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے ماباقی دنیا کے اہم ممالک سے روابط و تعلقات کو فروغ دینے میں سرگرم شروعات کی ہے ۔ شاہ سلمان کے حالیہ دورۂ ایشیاء کے بعد اردن کا سفر اور شاہ اردن عبداﷲ دوم سے ملاقات کو اہمیت دی جارہی ہے ۔ سعودی عرب اور اردن کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مضبوطی عطا کرتے ہوئے علاقائی سطح پر سلامتی صورتحال کو مزید موثر بنانے اور 15 معاہدوں و مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔ ایک ایسے وقت جب اردن میں ہی عرب لیگ کی چوٹی کانفرنس میں عرب اقوام کے بشمول دیگر مسلم ممالک میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لائحہ عمل کو قطیعت دینے پر غور ہوا وہیں شاہ سلمان اور شاہ اردن نے باہمی مسائل پر توجہ دی اور سکیورٹی ، عسکری ، اقتصادی ، سرمایہ کاری ، تعلیمی ، توانائی ، صحت ، ذرائع ابلاغ ، ثقافت ، زراعت اور محنت کے شعبوں میں دونوں ملکوں کی شراکت داری پر توجہ دی ۔ ساری دنیا میں خاص کر امریکہ میں آنے والی بڑی تبدیلیوں کے پیش نظر عرب اقوام کی صفوں میں اتحاد کی اہمیت اور مختلف شعبوں میں تمام سطح پر عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان قریبی رابطوں اور تعاون کو وقت کا تقاضہ سمجھ کر اس پر موثر طریقہ سے کام کیا جائے تو عرب دنیا کے ساتھ اسلامی دنیا میں ایک مضبوط پیام جائے گا کہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کی جانے والی عالمی سازشوں کا موثر جواب دیا جاسکتا ہے ۔ اس وقت عالم اسلام میں سب سے نازک اور سلگتا ہوا مسئلہ سرزمین فلسطین ہے جہاں یہودی اور صیہونی طاقتوں نے مل کر فلسطینیوں کو ان کی سرزمین پر تقریباً محروسی کی زندگی گذارنے پر مجبور کردیا ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کے لئے بلند بانگ دعویٰ کرنے والی مغربی طاقتوں نے ہی اس خطہ کو بدامنی کا شکار بنانے والی پالیسیاں تیار کی ہیں تو ان کا مقابلہ کرنے کے لئے عرب اتحاد کو طاقتور مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ عرب لیگ چوٹی کانفرنس کے شرکاء نے بھی مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کو یقینی بنانے والے اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا مگر اب تک کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ ہی صفر نکلتا رہا ہے تو عرب اتحاد کی دہائی دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ اس میں دورائے نہیں کہ عرب قائدین جب بھی مل بیٹھتے ہیں امن و استحکام کے لئے اپنے جذبہ کا بھرپوراظہار اور طویل مدت سے جاری علاقائی بحران کو دور کرنے کی ضرورت پر غور کرتے ہیں ۔ اس بحران نے سارے خطہ کو ایک طویل اور تباہ کن جنگ سے دوچار کردیا ہے ۔ بیروزگاری بڑھ گئی ہے ۔ شام سے لاکھوں افراد کا تخلیہ ، عراق میں آئے دن انسانی جانوں کا ضیاں عالم عرب کے سینے پر ایک بڑا بوجھ اور درد ہے جس کو دور کرنے کی ماضی کی کوششوں میں کوئی کامیابی نہیں ملی ۔ عرب لیگ چوٹی کانفرنس نے اسرائیل ، فلسطین تصادم کے بارے میں کئی قراردادوں کے بشمول ایک درجن پالیسی قراردادوں کی توثیق کی ہے مگر عوام کے اندر اعتماد اور بھروسہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ اردن کی میزبانی میں منعقد ہونے والی یہ عرب لیگ چوٹی کانفرنس علاقائی عرب اقوام کو ایک صف میں لانے میں کامیاب ہوئی ہے تو اس کے اثرات مشرق وسطیٰ امن و سلامتی کو یقینی بنانے میں دیکھے جاسکیں گے لیکن اس چوٹی کانفرنس میں عرب لیگ کے رکن ممالک نے اتحاد کی دہائی دے کر بھی اپنے اندر اتحاد کا ثبوت نہیں دیا تو یہ ایک سانحہ و المیہ ہی کہلائے گا کیوں کہ عرب لیگ کے رکن ممالک کو شام میں جاری 6 سال کی جنگ کے بشمول کئی اہم مسائل پر ایک دوسرے کے خلاف رائے زنی کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ۔ جب عرب لیگ کے رکن ممالک ہی بعض مسائل پر منقسم موقف رکھتے ہیں تو مسائل کی یکسوئی کی کوششیں مشکلات سے دوچار ہی رہے گی ۔ عرب لیگ نے شام کو 2011 ء میں ہی معطل کردیا ہے ۔ اس خطہ میں شاہ سلمان کی زیرقیادت سعودی عرب کو طاقتور موقف حاصل ہونے کے باوجود دیگر عرب ملکوں جیسے مصر کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی وجہ سے عرب دنیا کے اتحاد و طاقت کا محور تبدیل ہوجائے تو پھر اسلام و مسلمان دشمن طاقتوں کا سامنا کرنے میں وہ کس طرح کامیاب ہوسکیں گے یہ سوال ادھورا ہی رہے گا ۔