سعودی عرب، مصر، امارات، بحرین و یمن کے قطر سے سفارتی تعلقات منقطع

زمینی سرحدیں بند، فضائی و بحری راستے بھی متاثر، دوحہ پر اسلامی گروپس اور ایران کی تائید کا الزام
دوبئی ۔ 5 ۔ جون : ( سیاست ڈاٹ کام): چھ عرب ممالک نے آج صبح قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے اور اس طرح اب خلیجی عرب ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ یاد رہے کہ قطر اسلامی گروپس اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کی تائید اور دفاع کرتا آیا ہے ۔ بحرین ، مصر ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن اور لیبیا نے اعلان کردیا ہے کہ وہ قطر سے اپنے سفارتی اسٹاف کو باز طلب کرلیں گے ۔ قطر قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال ملک ہے جو 2022 میں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی بھی کرنے والا ہے ۔ علاوہ ازیں قطر میں امریکی فوجی اڈے بھی موجود ہیں ۔ دوسری طرف سعودی عرب نے انتباہ دیا ہے کہ یمن میں جاری جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں میں قطری ٹروپس کو ہٹالیا جائے گا ۔ حالات اتنی جلدی اس قدر تبدیل ہوجائیں گے کہ اس کے بارے میں قطر نے سوچا ہی نہ تھا حالانکہ قطر نے مندرجہ بالا چاروں ممالک کے ذریعہ سفارتی تعلقات ختم کرنے پر اسے صرف غیر منصفانہ عمل سے تعبیر کیا ہے البتہ قبل ازیں قطر نے اس بات سے ضرور انکار کیا تھا کہ وہ انتہا پسندوں کی فنڈنگ کررہا ہے ۔ مزید برآں تمام چاروں ممالک کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ قطر کے ساتھ نہ صرف سفارتی تعلقات بلکہ فضائی اور بحری ٹریفک کا نظام بھی مسدود کردیں گے جب کہ سعودی عرب نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ وہ قطر کے ساتھ اپنی زمینی سرحد کو بند کردے گا اس طرح عملی طور پر قطر جزیرہ نما عرب سے الگ تھلک ہوکر رہ جائے گا ۔ اس بات کا فوری طور پر پتہ نہیں چل سکا کہ اس اچانک اعلان سے قطر ایرویز کی کارکردگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ قطر ایرلائنز ملک کی سب سے بڑی ایر لائن ہے جو سعودی کی فضائی حدود سے گزرتی ہے ۔ قطر ایرلائنز نے بھی اس اچانک اعلان پر فی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے ۔ حالانکہ صرف ایک روز قبل تک قطر نے عرب ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کے بارے میں کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں دیا تھا ۔ 27 مئی کو قطر کے امیر تمیم بن حمد الثانی نے ایران کے صدر حسن روحانی کو فون کر کے انتخابات میںکامیابی پر انہیں مبارکباد پیش کی تھی ۔ شاید یہی فون کرنا سعودی عرب کو پسند نہیں آیا ۔ سعودی عرب شیعہ ایران کو اپنا دشمن نمبر ایک تصور کرتا ہے اور علاقائی تحفظ کے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے ۔ علاوہ ازیں قطر کے العدیہ ایر بیس میں امریکی فوج کے سنٹرل کمانڈ کے تحت 10,000 فوجی رہائش پذیر ہیں ۔ یہ بات بھی واضح نہیں ہوسکی کہ آیا اس اعلان سے امریکی فوجی آپریشن بھی متاثر ہوگا یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں جب سنٹرل کمانڈ عہدیداران اور پنٹگان سے ربط کیا گیا تو انہوں نے فوری طور پر کسی بھی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ مصر کی وزارت خارجہ نے قطر پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ مصر کے تعلق سے اس نے منفی رویہ اپنایا ہے اور اسلامی گروپس سے تعلقات نہ رکھنے کی کئی بار قطر کو تلقین کی گئی لیکن قطر نے کسی کی نہیں سنی ۔ دولت اسلامیہ ، القاعدہ اور اخوان المسلمین جیسی تنظیموں کو قطر کی زبردست تائید حاصل ہے اور یہ تمام تنظیمیں اس خطہ میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں ۔ چھوٹا ملک تصور کیے جانے جزیری ملک بحرین نے بھی قطر پر یہی الزام عائد کیا ہے کہ وہ مسلح دہشت گردانہ سرگرمیوں کی تائید کرتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہئے اور ایرانی گروپس کو جس طرح فنڈنگ کی جارہی ہے اس سے بحرین میں افراتفری کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اسلامی گروپ کی تائید کرنے پر قطر کو عرصہ دراز سے دیگر عرب ممالک کی جانب سے تنقیدوں کا سامنا ہے ۔