سعودی خواتین کی ڈرائیونگ پر نصف شب سے امتناع برخواست

دارالحکومت ریاض خوشی کے نعروں سے گونج اٹھا ‘ آدھی رات سے سڑکوں پر خواتین کی کاروںکا ہجوم
ریاض ۔ 24جون ( سیاست ڈاٹ کام ) نصف شب سے سعودی خواتین پہلی بار اپنے ملک میں ڈرائیور کی نشست پر پہنچ گئیں اور اسٹیرنگ تھامے ہوئے شہر کی مصروف سڑکوں سے گذرنے لگیں‘ تاحال سعودی خواتین اپنے بچوں کو اسکول پہنچانے کیلئے بھی اپنے شوہروں یا کسی محرم پر منحصر تھیں لیکن آج آدھی رات سے ان کی ڈرائیونگ پر عائد امتناع برخواست کردیا گیا اور خواتین بھی دنیا بھر کی دیگر خواتین میں شامل ہوگئیں جو ڈرائیونگ کرسکتی ہیں ۔ دارالحکومت ریاض کی مصروف تحلیہ سڑک آدھی رات کے بعد پُرہجوم ہوگئی تھی اور تمام کاروں میں خاتون ڈرائیورس نظر آرہی تھیں ۔ سعودی عرب میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کیلئے شہریوں کو پہلے امریکی لائسنس حاصل کرنا پڑتا تھا اور اس کے بعد وہ آسانی سے ڈرائیونگ کرسکتے تھے لیکن اب یہ پابندی برخواست کردی گئی ہے ۔ تقریباً 30سال تک امتناع عائد رہنے کے بعد سعودی خواتین کا مقام معاشرہ میں مردوں کے برابرہوگیا ۔ خواتین نے ڈرائیونگ کا حق حاصل کرلیا اور 30سال بعد سڑکوں پر کاریں چلاتے ہوئی نظر آنے لگیں ۔ دیگر مسلم ممالک میں خواتین کی ڈرائیونگ پر کوئی امتناع عائد نہیں ہے ۔ 1990ء میں پہلی بار خواتین پر ڈرائیونگ کے سلسلہ میں امتناع عائد کیا گیا تھا ۔ دارالحکومت ریاض میں مقامی ملازمتوں پر تقرر میں بھی خواتین کو مشکلات کا سامنا تھا لیکن اب سعودی عرب میں خواتین کو نہ صرف ڈرائیونگ کی اجازت حاصل ہے بلکہ ان کا تقرر ملازمتوں میں بھی کیا جارہا ہے ۔ خواتین کی ڈرائیونگ پر تنقید ختم ہوچکی ہے اور وہ اب اپنے بچوں کو اسکول تک پہنچاسکے گی ۔ ہر چند قدم پر شادی شدہ جوڑے ‘نوجوان لڑکیوں کے گروپ غباروں کے ساتھ موجود تھے اور خوشی کے نعروں کے ساتھ فضاء میں غبارے اڑا رہے تھے ۔ یہ لوگ خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد امتناع کی برخواستگی کا جشن منارہے تھے اور شہر میں ہر طرف ہارن بجاتے ہوئے گھوم رہے تھے ۔ خواتین پہلی بار اپنی ذاتی کاروں میں ڈرائیونگ کی سیٹ پر نظر آرہی تھیں ۔ برسوں سے سعودی عرب خواتین کی ڈرائیونگ پر امتناع کی وجہ سے دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنا ہوا تھا لیکن آج آدھی رات سے یہ امتناع برخواست ہوگیا اور دنیا بھر کی تنقیدوںکا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ۔