سشیل کمار شنڈے، کپل سبل، سلمان خورشید، میرا کمار، اروند کجریوال، ارون جیٹلی کو شکست

نئی دہلی 16 مئی (سیاست ڈاٹ کام) جہاں نہ صرف کانگریس کا صفایا ہوا ہے، بلکہ علاقائی پارٹیاں جیسے سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، جنتادل (یو) اور آر جے ڈی کا بھی صفایا ہوا ہے۔ بی جے پی نے مودی کی آبائی ریاست گجرات میں بھی شاندار کامیابی حاصل کی، اس کے ساتھ اہم ترین ریاست مہاراشٹرا، کرناٹک اور آسام میں بھی جے پی کو زبردست کامیابی ملی ہے۔ سبکدوش ہونے والے لوک سبھا میں بی جے پی کے 116 ارکان تھے اور قومی ووٹ کا فیصد 18.8 تھا، جب کہ کانگریس کے 206 ارکان کے ساتھ 28.55 فیصد ووٹ تھا۔ جاریہ انتخابات میں بی جے پی کا ووٹ فیصد 31.4 ہے، اس کے برعکس کانگریس کو صرف 19.5 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اس مرتبہ کانگریس کو بدترین شکست ہوئی، اس کو اب تک کی سب سے کم نشستیں یعنی صرف 44 پر کامیابی ملی ہے۔ پارٹی صدر سونیا گاندھی اور کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے پارٹی کی ناکامی کے لئے ذمہ داری قبول کی ہے۔ مودی کی لہر پر سوار ہوکر بی جے پی نے 1984ء میں لوک سبھا کے دو ارکان کے ساتھ اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت پارٹی کو اٹل بہاری واجپائی کی مقبولیت بھی حاصل تھی۔ بی جے پی نے 1998ء اور 1999ء میں ایودھیا تحریک کے عوض صرف 128 نشستیں حاصل کی تھی۔ کئی ریاستوں میں کانگریس دو ہندسی نشان کو بھی عبور نہیں کرسکی۔ بی جے پی نے گجرات میں 26، راجستھان میں 25، دہلی میں 7، اترا کھنڈ میں 5، ہماچل پردیش میں 4 اور گوا میں 2 حلقوں سے قطعی کامیابی حاصل کی ہے۔

بی جے پی نے ہندوستان کی سب سے بڑی ہندی ریاست اتر پردیش میں بھی شاندار بلکہ تقریباً قطعی کامیابی حاصل کی ہے، جہاں 80 نشستوں کے منجملہ اسے 71 نشستوں پر کامیابی مل رہی ہے۔ اس کی حلیف پارٹی اپنا دل دو حلقوں میں سبقت حاصل کئے ہوئے ہے، دیگر تمام نشستوں پر دو سیاسی پارٹیوں کے خاندانوں نے کامیابی حاصل کی۔ علاقائی پارٹیوں میں صرف انا ڈی ایم کے، ترنمول کانگریس اور بی جے ڈی نے زعفرانی مورچے کو ناکام بنایا ہے۔ تاملناڈو، مغربی بنگال اور اوڈیشہ میں ان تینوں پارٹیوں کو شاندار کامیابی ملی ہے۔ انا ڈی ایم کے کو 5 نشستوں پر منتخب قرار دیا گیا اور وہ 32 نشستوں پر سبقت رکھتی ہے، جب کہ ترنمول کانگریس نے 12 حلقوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور 22 پر سبقت لے جا رہی ہے۔ بی جے ڈی نے 21 حلقوں کے منجملہ 19 پر کامیابی حاصل کرکے شاندار مظاہرہ کیا ہے۔ ان انتخابات میں جن اہم قائدین نے کامیابی حاصل کی ہے، ان میں نریندر مودی کو دونوں حلقوں (وڈوڈرا اور وارانسی) سے، رائے بریلی سے سونیا گاندھی، راہول گاندھی (امیٹھی) اور سشما سوراج (ودیشیا) شامل ہیں۔

بی جے پی نے کامیابی کا شاندار ریکارڈ قائم کیا، مگر اس کے سینئر لیڈر ارون جیٹلی کو پنجاب کے سابق چیف منسٹر اور کانگریس امیدوار امریندر سنگھ کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی ہے۔ امرتسر میں امریندر سنگھ نے 1,02,770 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ کانگریس کے جن اہم ترین قائدین کو بدترین شکست ہوئی ہے، ان میں مرکزی وزیر سشیل کمار شنڈے، کپل سبل، اجے میکن، سری پرکاش جیسوال، سلمان خورشید، سی پی جوشی، سچن پائلٹ، پلم راجو کے علاوہ اسپیکر لوک سبھا میرا کمار، آر ایل ڈی سربراہ اجیت سنگھ، این سی پی لیڈر پرافل پٹیل اور پریہ دت (ممبئی) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے صدر اروند کجریوال کو وارانسی سے شکست ہوئی ہے۔ بی جے پی کے وزارت عظمی کے امیدوار نے وڈوڈرا میں کانگریس کے جنرل سکریٹری مدھو سدن مستری کو شکست دے کر 5,70,000 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، جب کہ سونیا گاندھی نے اپنے بی جے پی کے حریف امیدوار اجے اگروال کو 3.5 لاکھ ووٹوں سے شکست دے دی۔

بی جے پی کی سینئر لیڈر اور 15 ویں لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر سشما سوراج نے ودیشیا حلقہ سے زائد از 4 لاکھ ووٹوں کی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے کانگریس کے لکشمن سنگھ کو شکست دی ہے۔ پارلیمانی امور کے وزیر کمل ناتھ نے اپنے چھندواڑہ حلقہ میں کامیابی کو برقرار رکھا ہے، جہاں سے انھوں نے بی جے کے امیدوار کو 1.16 لاکھ ووٹوں سے شکست دی۔ جن دیگر کابینی وزراء نے کامیابی حاصل کی ہے، ان میں وزیر پٹرولیم ایم ویرپا موئیلی چکبالا پور اور جیوترودتیہ سندھیا نے گونا سے تقریباً 1.20 لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ باپ بیٹے رام ولاس پاسوان اور چرن پاسوان بہار میں علی الترتیب حاجی پور اور جموئی حلقوں سے کامیاب ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے باغی اور سابق سینئر لیڈر جسونت سنگھ بھی بارمیر سے انتخاب ہار گئے ہیں، انھیں کرنل سونا رام چودھری نے 80 ہزار ووٹوں سے ناکام بنایا۔