سری لنکا کے صدارتی نتائج

مل رہی ہے اسے کئے کی سزاء
خون ذلت اگل رہا ہے سانپ
سری لنکا کے صدارتی نتائج
سری لنکا کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو ٹامل عوام کی کامیابی قرار دیا جارہا ہے تو یہ شکست کھانے والے صدر مہندا راجہ پکسے کی پالیسیوں اور ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ 2009ء میں ٹامل اقلیتوں کے خلاف جنگی جرائم میں ان کے مبینہ رول کے باعث اپوزیشن پارٹی کے لیڈر متھرئی پالا سریسینا کو کامیابی ملی ہے۔ اگرچیکہ گذشتہ سال نومبر تک بھی میتھرئی پالا سریسینا اور راجہ پکسے ایک دوسرے کے اتحادی تھے۔ سریسینا نے اتحاد توڑ کر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا تھا۔ سری لنکا میں 2009ء کی خانہ جنگی نے راجہ پکسے کے سیاسی کیریئر پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔ عوام نے انہیں مسترد کردیا ہے تو اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنا کر ایک مدت سے تبدیلی کے خواہاں عوام کو ترقی و خوشحالی فراہم کرنا منتخب لیڈر کی ذمہ داری ہے۔ سری لنکا کے عوام قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے پرامن طریقہ سے اپنے نئے لیڈر کا انتخاب کیا ہے۔ اس ملک کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو سنہالیوں اور نسلی ٹاملوں دونوں کے توقعات پر پوری طرح سے اترے۔ ملک کی ترقی میں ہر دو کو یکساں حصہ ملنا چاہئے۔ سری لنکا کے تمام شہریوں کو بلا امتیاز ترقی و خوشحالی فراہم کرنا ہی ایک اچھی حکمرانی کی علامت ہوتی ہے۔ سبکدوش ہوئے صدر راجہ پکسے نے ابتداء میں اقتدار کی باگ ڈور سمجھداری سے سنبھال رکھی تھی لیکن بعدازاں حکمرانی کے امور میں ان کے خاندان والوں نے آمریت پسندانہ رول ادا کرنا شروع کیا تو عوام کی ناراضگی آج تبدیلی بن کر ابھری ہے۔ راجہ پکسے پر یہ بھی الزام ہیکہ انہوں نے پڑوسی ملک ہندوستان کے ساتھ بھی سخت موقف اختیار کیا تھا۔ چین کے ساتھ ان کی بڑھتی قربت پر بھی تشویش لاحق ہوگئی تھی۔ اب نئی حکومت کے آنے کے بعد توقع ہیکہ ہند ۔ سری لنکا کے درمیان باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔ سری لنکائی ٹاملوں کے اندر راجہ پکسے کے خلاف شدید ناراضگی پائی جاتی تھی۔ علحدگی پسندانہ شورش کو کچلنے کیلئے ان کی بہیمانہ فوجی کارروائیوں کے حکم کے بعد ہزاروں شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد سری لنکا میں اقتدار کا کھیل اکثریتی سنہالیوں اور اقلیتی رائے دہندوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا تھا لیکن ٹاملوں کے ووٹوں نے نئے صدر کو اقتدار کا موقع دیا ہے۔ زائد از ایک ملین ٹامل عوام نے سریسینا کو ووٹ دیا ہے جس کی وجہ سے ملک گیر سطح پر انہیں 51,28 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ ان کی کامیابی میں اصل ٹامل پارٹی، ٹامل نیشنل الائینس کا بھی اہم رول ہے۔ اب نئے صدر کو ٹاملوں کے جائز حقوق و مطالبات کو پورا کرنے کیلئے ایک مشکل مرحلہ سے گذرنا پڑے گا کیونکہ سری لنکا کے ٹامل علاقوں کو خودمختاری دینے کا دیرینہ مطالبہ کس طرح پورا کیا جاتا ہے یہ دیکھنا اہم ہے۔ نئے صدر کو اپنے ملک کو درپیش کئی سنگین اور نازک چیلنجس سے نمٹنا ضروری ہے۔ ان چیلنجس میں ایک اہم مسئلہ قومیت کا سوال ہے اور ٹامل خودمختاری علاقہ کا مطالبہ پورا کیاجاتا ہے تو سینہالی گروپ کا ردعمل کیا ہوگا۔ یہ نئے صدر کے لئے اہم ہوگا کیونکہ ٹامل ٹائیگرس نے تقریباً 5 سال تک جافنا علاقہ کو ایک قائم مقام مملکت کے طور پر چلایا تھا انہیں 1995ء میں بیدخل کردیا گیا تو اس کے بعد سے یہ علاقہ شدید جنگی میدان بن گیا تھا اور خون خرابے کا یہ سلسلہ 2009ء تک جاری رہا۔ خانہ جنگی کے دوران ہونے والے فوجی مظالم کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ بھی زور پکڑے گا۔ ٹامل عوام نے میتھرتی پالا سریسینا کو تبدیلی کا چمپیئن بنا کر کامیاب کیا ہے کیونکہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ جنگی دور کے مظالم کی تحقیقات کروائیں گے اس بات کو سابق صدر راجہ پکسے نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا کہ ان کی فوج نے بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا تھا۔ مئی 2009ء میں خون ریز کارروائی میں ٹامل باغیوں کو شکست دینا آج راجہ پکسے کیلئے بھاری پڑا ہے۔ سری لنکا کی تاریخ میں سب سے زیادہ اموات 1992 اور 2009ء کے درمیان ہونے والی لڑائیوں میں ہوئی ہیں۔ راجہ پکسے نے اگرچیکہ جنگی علاقوں میں ہونے والی تباہی کو درست کرنے کیلئے تعمیرنو اقدامات کئے تھے انفراسٹرکچر پر کئی بلین ڈالرس خرچ بھی کئے لیکن عوام کے ذہن کی تبدیلی نے اقتدار کا تختہ ہی الٹ دیا کیونکہ اچھی سڑکوں اور نئی ریلوے لائن کی اہمیت اس وقت ہوتی ہے جب عوام کو امن و سکون نصیب ہوجائے۔ نئے صدر کو اس امن و سکون کیلئے کام کرنا ہے۔
سرمایہ کاری کے مواقع
مغربی بنگال اور گجرات میں تجارتی و مالیاتی چوٹی کانفرنس کے نتائج کے درمیان مرکزی حکومت نے سرمایہ کاری کے مواقع کو وسیع تر کرنے کیلئے ایک بڑی چوٹی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سب سے بڑی میگا سرمایہ کاری چوٹی کانفرنس میں دنیا کے سرفہرست سرمایہ دار شرکت کریں گے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ’’میک ان انڈیا‘‘ پروگرام کو وسعت دینے کیلئے عالمی سرمایہ کاروں کو ہندوستان کی سرزمین پرکشش بنانے کی کوشش کے اگر مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں تو ملک میں بیروزگاری کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوجائے گا۔ آئندہ ماہ ہونے والی اس سرمایہ داروں کی چوٹی کانفرنس میں مودی حکومت کو ہندوستان کے وسائل کا سودا کرنے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ ہندوستانی معاشی اصلاحات کی پالیسی پر تبادلہ خیال کرنے جارہی ہے۔ میک ان انڈیا پروگرام کو کامیاب بنانے کیلئے بیرون سرمایہ کار مودی حکومت کو ہندوستان میں پرکشش سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے کا بھی مشورہ دے سکتے ہیں۔ ایسے میں یہ سرمایہ کار اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ہندوستان کے قدرتی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں گے۔ ایسے میں ہندوستانی عوام کی ملکیت پر بیرونی سرمایہ کاری کو واچ کرنے کی یکسر اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لہٰذا مودی حکومت کو معاشی اصلاحات اور دیگر معاشی تبدیلیوں کے لئے دکھائے جانے والے اقدامات پر باریک بینی سے غور کرنا ہوگا تاکہ ہندوستانی عوام کے مفادات متاثر نہ ہونے پائیں۔ عالمی انفراسٹرکچر کا ایک بڑا مرکز بنانے کی نیت کے ساتھ ہندوستان کی سرزمین کو میک ان انڈیا بنانے والی مودی حکومت کے لئے ڈیفنس میڈیکل ڈیوائس اور انشورنس شعبوں میں فراخدلانہ پالیسی کے ساتھ ہندوستانی مفادات کے تحفظ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہوگا۔